السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتےہیں علماء دین صورت ذیل میں کہ نظام الدین نے انتقال کیا۔چھوڑا تین لڑکے: ابراہیم ،ولی محمد،عظیم اللہ کو ،اور ابراہیم کے تین لڑکے: رفیع الدین ، عبدالرحمن،عبداللہ بعدہ انتقال کیا رفیع الدین نے ،چھوڑا اپنے باپ ابراہیم کو اور دو بھائی عبداللہ و عبدالرحمن کو ،اور ایک لڑکے عبدالخالق کو اور ایک بیوی مریم کو اور انتقال کیا عبداللہ نے ،چھوڑا : اپنے باپ ابراہیم کو اور ایک بھائی عبدالرحمن اور دو لڑکے عبدالقیوم،عبدالحئی کو ،اور پانچ لڑکیوں کو اور ایک بیوی کو اور بھتیجے عبدالخالق کو۔بعدہ ابراہیم نے انتقال کیاچھوڑا: اپنے ایک لڑکے عبدالرحمن کو اور دو بھائی عظیم اللہ اور ولی محمد کو۔بعدہ عبدالرحمن نے انتقال کیا،چھوڑا ایک لڑکے قادر بخش کو اور ایک بیوی عائشہ کو اور چچا عظیم اللہ و ولی محمد کو،اس کےبعد ولی محمد نے انتقال کیا چھوڑا ایک بھائی عظیم اللہ کو اور دو لڑکے عبدالغفور و عبدالجبار کو بعدہ قادر بخش نے انتقال کیا چھوڑا ماں اور بیوی اور تین لڑکے عبدالعزیز عبدالرحیم و نذیر اور ایک لڑکی فاطمہ کو۔
نظام الدین کےمتروکہ مکان کے بابت عبدالخالق کا بیان ہے کہ ہمارے دادا ابراہیم نے اپنے لڑکے عبداللہ کو اس میں سے نکال کر ہم کو اس مکان میں رکھ دیا۔لیکن اس کا کوئی گواہ یا تحریری ثبوت نہیں ہے۔اور ان کے بعد چچا عبدالرحمن بھی اپنی بیوی عائشہ اور اپنے لڑکے قادر بخش کے سامنے مرض الموت کی حالت میں کہہ گئے کہ میں نے یہ مکان عبدالخالق کو دے دیا ہے(لیکن عائشہ و قادر بخش دونوں فوت ہوچکے ہیں)ان دونوں نے اپنی زندگی میں کبھی اپنی اولاد سے اس کا ذکر نہیں کیا کہ اس مکان کو عبدالرحمن نے عبدالخالق کو دیدیا ہے۔ ہاں تقریبا پچاس برس سے عبدالخالق اس مکان پر قابض و متصرف ہیں ،اور حسب ضرورت اس کی مرمت وغیرہ کے اخراجات وہی اٹھاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر اس مکان میں دوسروں کا بھی حق ثابت ہو،تو اس صورت میں وہ اپنے اخراجات کا ان حق داروں سے مطالبہ کرنے کا شرعا حق رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور ان حق داروں پر ان اخراجات کی ادائیگی واجب ہے یا نہیں ؟۔
اور عبدالقیوم کا بیان ہے کہ اس مکان کو عظیم اللہ نے ہم کو دیا (اس کا کوئی گواہ یا تحریری ثبوت نہیں ہے)
سوال یہ ہے کہ نظام الدین کے متروکہ مکان کے حقدار کون کون ہیں اور وہ شرعا کس طرح تقسیم ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعد تقديم ماتقدم على الارث ورفع موانعه نظام الدین کے مرنے کے بعد ،ان کے متروکہ مکان کے حق دار ان کے تینوں بیٹے ابراہیم ،ولی محمد،عظیم اللہ ہوئے۔ اس کےبعد نظام الدین کے ورثہ میں سے پہلے ابراہیم کا انتقال ہوا ہے (رفیع الدین اور عبداللہ نظام الدین کے وارث نہیں ہیں اس لئے ان کے پہلے مرنے کا ہم نے لحاظ نہیں کیا)لیکن چوں کہ ابراہیم کے حق کی بابت ان کے ورثہ اور عبدالخالق ولد رفیع الدین کے مابین نزاع ہے اس لئے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔اس کے بعد ولی محمد کا انتقال ہوا ہے اس لئے ان کاحق ان کے دونوں لڑکے عبدالغفور اور عبدالجبار کو ملے گا۔عظیم اللہ کے مرنے کا ذکر سوال میں نہیں ہے اس لئے اگر وہ زندہ ہوں تو خود ان کو ورنہ ان کے ورثہ کو یہ حق ملے گا۔ان کے حق کی بابت عبدالقیوم ولد عبداللہ کا یہ دعوی کہ عظیم اللہ نے اپنا حق ہم کو دے دیا ہے،شرعا قابل سماعت نہیں ہے،اس لئے کہ شہادت اور ثبوت نہ ہونے کے علاوہ اس مکان پر عبدالقیوم کا قبضہ بھی نہیں ہے،اور بغیر قبضہ کے "ہبہ" تام نہیں ہوتا ہے۔ابراہیم کا معاملہ تو جہاں تک ظاہر حالات اور قرائن کا تعلق ہے، ان کے حق کی بابت عبدالخالق کا کہنا بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے، اس لئے کہ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جب یہ سب کو تسلیم ہے کہ تقریبا پچاس برس سے تنہا عبدالخالق اس مکان پر قابض بھی ہیں اور متصرف بھی ۔اور یہ قبضہ ان کو ابراہیم اور عبدالرحمن کی زندگی ہی میں حاصل ہوگیا تھا۔تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس مکان میں نہ رفیع الدین کا کوئی حق تھا اور عبدالخالق کا۔تو پھر اس پر ان کو یہ مکمل قبضہ آخر حاصل کیسے ہوا؟
اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں: یا تو یہ کہا جائے کہ عبدالخالق ایسے ظالم بااثر رعب و ادب اور جاہ و جلال والے آدمی ہیں کہ زبر دستی ابراہیم اور ان کے ورثہ کو اس مکان سے نکال کر بلا کسی استحقاق کے اس پر غاصبانہ قابض ہوگئے ،اور ابراہیم کے ورثہ کمزور ہونے کی وجہ سے اب تک اپنا حق ان سے واپس نہ لے سکے۔
اور یا تو یہ کہا جائے کہ رفیع الدین کے مرجانے کے بعد ابراہیم نے اپنے
پوتے عبدالخالق کی یتیمی پر ترس کھایا، اور عبدالرحمن نے بھی اپنے اس محجوب الارث بھتیجے پر شفقت کی نگا ڈالی ،اور اپنی خوشی اوررضامندی سے،یہ مکان بطور ہبہ کے ان کے حوالہ کر کے خود دوسرے مکان میں جاکر آباد ہوگئے۔اگر ابراہیم اور عبدالرحمن کے ورثہ پہلی صورت کے مدعی ہوں تو اس کا بار ثبوت ان کے ذمہ ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے کا ایک واقعہ حدیثوں میں مروی ہے کہ قبیلہ کندہ کے ایک آدمی کے قبضہ میں کچھ زمین تھی اس پر ایک حضری نے دعوی کیا ،اور کہا کہ یہ زمین میرے باپ کی ہے اور اس پر اس کندی نے زبردستی قبضہ کرلیا ہے، کندی نے کہا کہ : نہیں حضور یہ زمین میری ہے۔میرے قبضے میں ہے اور میں اس میں کھیتی کرتا ہوں،اس کا اس میں کچھ حق نہیں فقال الكندى:هى ارضى فى يدى أزرعها ليس فيها حق فقال النبى صلى الله عليه وسلم ا للحضرمى :الك بينة؟قال :فلك يمينه
"نبی ﷺنے حضری سے فرمایا کہ : کیا تمہارے پاس اس دعوے کے ثبوت میں کوئی شہادت (بینہ) ہے؟۔اس نے کہا کہ : نہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: تب اس صورت میں کندی (مدعی علیہ ) کی قسم پر فیصلہ ہوگا"۔(مسلم(1)80ج1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز کسی کے قبضہ اور تصرف میں ہو اور پھر کوئی دوسرا شخص اس قبضہ اور تصرف کو غلط اور ناجائز قرار دے تواس کا ثبوت اسی کے ذمہ ہے۔
بظاہر تو یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کہ عبدالخالق نے زبردستی قبضہ کیا ہو۔ اس لئے کہ اگر واقعی عبدالخالق نے ابراہیم اور عبدالرحمن کی مرضی کے خلاف زبردستی اپنے طاقت کے بل پر اس مکان پر ظالمانہ اور غاصبانہ قبضہ کر لیا ہوتا،تو ان کے خاندان اور وارث میں ضرور اس کا چرچا ہوتا۔اور یقینا وہ لوگ کہہ جاتے کہ عبدالخالق جس مکان میں رہتے ہیں وہ مکان ہمارا ہے۔عبدالخالق نے ہم لوگوں سے زبردستی چھین لیا ہے،لیکن اس قسم کی کوئی بات سوال میں مذکور نہیں ہے ۔بلکہ مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ ابراہیم اور عبدالرحمن ہمیشہ ہی عبدالخالق پر شفقت اور محبت کی نگار رکھتے تھے،بلکہ انہی لوگوں نے ان کی پرورش کی ہے ،یہاں تک کہ عبدالرحمن نے اپنی لڑکی کی شادی بھی عبدالخالق سے کردی تھی،اور ان لوگوں کے تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار اور اچھے رہے۔ اس لئے یہ بات قرین قیاس نہیں معلوم ہوتی کہ عبدالخالق نے اس مکان پر زبردستی قبضہ کرلیا ہو۔لہذاقبضہ کی مذکورہ بالا دونوں صورتون میں سے دوسری ہی صورت صحیح معلوم ہوتی ہے۔اور جب یہ صحیح ہے تو عبدالخالق کا بیان درست ہوا۔لہذا ابراہیم کے حق کی بابت ان کا ورثہ کا دعوی غلط ہے اور اب اس حق کے مالک عبدالخالق ہی ہیں۔اگر کسی کو شبہ ہو کہ قبضہ تو اجازت و رضامندی ہی سے کیا ہے مگر یہ اجازت عارضی تھی اور تملیک نہ تھی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی ہونے کا ثبوت ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ جب وہ چالیس پچاس برس سے مالکانہ تصرف کرتے رہے جس طرح سے چاہا اپنی مرضی کے مطابق اس کو گرادیا اور جس طرح چاہا اس کو بنوایا۔اس کی تقریبا تمام دیواروں اور چھاجن وغیرہ کو انہوں نے ردوبدل کر دیا ہے،اور اس طرح اس مکان کی جدید تعمیر وغیرہ پر انہوں نے اپنی کافی رقم خرچ کر ڈالی اور کبھی کسی نے کوئی مزاحمت اور اعتراض نہیں کیا۔حالاں کہ سب لوگ اپنی آنکھوں سے عبدالخالق کے ان تمام تصرفات و اخراجات کو دیکھ رہے تھے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عبدالخالق اس کو اپنا مکان سمجھتے رہے ،اسی طرح یہ لوگ بھی اس کو عبدالخالق ہی کا مکان سمجھتے تھے اس لئے اب ان لوگوں کا دعوی قابل سماعت نہیں ہے۔(قال فى فتاوى الولو الجن رجل تصرف زمانا فى ارض آخر ورجل آخر راى الارض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى والده فتر ك فى يد المتصرف لان الحال شاهد)(مجموعہ فتاوی عبدالحئی لکھنوی3/43 یعنی:"دلوالجی کے فتاوی میں ہے کہ ایک شخص کسی زمین پر عرضہ تک متصرف رہا اور دوسرا شخص زمین اور اس میں تصرفات دونوں کو دیکھنے کے باوجود خاموش رہا اور اس زمین کی بابت کوئی دعوی نہیں کیا۔تو اس کے مرنے کے بعد ان کے لڑکے کا دعوی اس زمین کی بابت نہ سنا جائے گا اور زمین جس کے تصرف میں ہے اسی کے قبضہ میں چھوڑ دی جائے گی اس لئے کہ ظاہر حال اسی کا شاہد ہے۔وفى فتاوى الغزى صاحب التنوير سئل عن رجل له بيت فى دار يسكنه مدة يزيد على ثلث سنوات وله جار بجانبه والرجل المذكوره يتصرف فى البيت هدما وعمارة مع اطلع جاره على تصرفه فهل اذا دعى البيت او بعضه تسمع دعواه ام لا؟اجاب لاتسمع دعواه على ماعليه الفتوى(حواله )
یعنی:"فتاوی عزی میں ہے کہ صاحب تنویر سے پوچھا گیا کہ : ایک شخص ایک گھر میں تین برس سے زائد عرصہ سے رہتا ہے اور اس مکان میں تصرفات از قبیل انہدام و تعمیر کرتا رہتا تھا۔اب اس کا پڑوسی تما م مکان کا یا بعض حصہ کا مدعی ہے،حالاں کہ اسے ان تصرفات کی ہمیشہ اطلاع رہی ، تو اب اس کا یہ دعوی مسموع ہوگا یا نہیں؟۔تو انہوں نے جواب دیا کہ قول مفتی کے مطابق یہ دعوی قابل سماعت نہیں ہے"۔
عبدالخالق کے اس بیان سے کہ چچا عبدالرحمن نے مرض الموت میں کہا ہے کہ :میں نے یہ مکان عبدالخالق کو دے دیا ہے اگر کسی کو یہ شبہ کو کہ یہ تو وصیت کے حکم میں ہےلہذا صرف ثلث کے حق دار یہ ہو سکتے ہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرض الموت میں عبدالرحمن نے ہبہ نہیں کیا ہے بلکہ اس سابق ہبہ کی تصدیق و تاکید کی ہے جو تندرستی اور صحت کی حالت میں کرچکے تھے۔لہذا اس کو وصیت نہیں قرار دیا جائے گا۔
آخر میں یہ بات میں پھر صاف کردینا چاہتا ہوں کہ اس مکان میں عبدالخالق صرف ابراہیم کے حصہ کے حق دار ہیں ولی محمد اور عظیم اللہ کے حصے کے یہ مالک نہیں ہوسکتے۔
کتبہ نذیر احمد رحمانی مدرس اول
جامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس
4/رجب13ھ/5/2/1957ء
حدیث مسئول عنہ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں سوابين اولادكم فى العطية ولو كنت مفضلا احد لفضلت النساء
اور ٹھیک اسی طرح یہ حدیث مستفتی کے جواب میں لکھی گئی تھی۔الفاظ حدیث پر اعراب لگانے اور ’’ولوکنت"بنانے اور "لفضلت النساء" کے بجائے "لفضیلۃ النساء"لکھنے کی زحمت غالبا مستفتی نے اٹھائی ہے؟ اللہ تعالیٰ ان پر رحم
فرمائے۔اولا: تو انہیں اس سوال و جواب کا بغیر میری اجازت و اطلاع کے ،اخبار میں اشاعت کے لیے بھیجنا مناسب نہ تھا۔دوسرے یہ کہ اصل کے بجائے نقل بھیجنا تھا تو نقل میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔
1:میں موجود ہے اور اس کو طبرانی نے معجم کبیر میں ،سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ،ابن عدی نے الکامل میں ،خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں بیہقی نے السنن الکبری میں ،ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔
(2)سنن سعید بن منصور کی سند اس طرح ہے حدثنا اسمعيل بن عياش عن سعيد بن يوسف عن يحيى بن ابى كثير عن عكرمه عن ابن عباس قال قال رسو الله صلى الله عليه وسلم (زيلعى 4/123)سعیدبن منصور کے طریق سے ابن عدی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے ،اور طبرانی نے اس کے علاوہ دوسرے طریق سے بھی روایت کیا ہے
(3)سعید بن یوسف جو صغار تابعین سے ہیں پر امام احمد،ابن معین ،نسائی ،محمد بن عوف نے کلام کیا ہے۔امام احمد فرماتے ہیں:"لیس بشئی"اور ابن معین ،نسائی ،محمد بن عوف کہتے ہیں:"ضعیف الحدیث" ۔ نسائی نے ان کی بارے میں "لیس بالقوی"بھی کہا ہے اور حافظ نے "تقریب" اور "تلخیص" میں ان کو "ضعیف" کہا ہے ۔ لیکن ابن حبان نے ان کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے اور ابو حاتم فرماتے ہیں"حدیثہ لیس بالمنکر"اور ابن عدی لکھتے ہیں:"روایاتہ باثبات الا سانید لا باس بھا"اس کے ساتھ ہی ان کی اس حدیث کو انہوں نے منکر بھی بتایا ہے۔سعید بن یوسف کے بارے میں ابن معین وغیرہ کی جرحوں کے غیر مفسر ہونے اور ان کو مختلف فیہ راوی ہونے کی بنا پر حدیث کی اس سند کو "حسن" کہنا غلط نہیں ہوگا۔بالخصوص ایسی صورت میں جب کی دوسرے طریق سے بھی مروی ہو۔یہی وجہ ہے کہ حافظ نے "درایہ" میں اس حدیث کو سنن سعید بن منصور اور ابن عدی کی روایت سے ذکر کرکے سکوت اختیا کیا ہے۔اور فتح الباری (5/214) میں اس کی سند کو "حسن" بتایاہے ،اور بیہقی نے بھی اس پر کچھ کلام نہیں کیا ہے۔
اسمعیل بن عیاش کی وہ روایت جو شامی شیوخ سےمروی ہو صحیح اور حسن و مستقیم ہوتی ہے۔لہذا ان کی وجہ سے اس روایت میں کلام کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
(4)لفظ"اولاد"لغۃ اور شرعا ،عرفا،ذکورواناث دونوں پر بولا جاتا ہے۔حدیث مذکور میں (فلوكنت مفصلا احد لفضلت احد لفضلت النساء) قرینہ ہے اس بات کا کہ یہاں لفظ اولاد ذکورواناث دونوں کو شامل ہے اور یہ جملہ نہ ہوتا ،تب بھی یہ عموم پر ہی محمو ل ہوتا۔()اسی بنا پر عزیزی لکھتے ہیں:"قولہ(قوله ساووابين اولادكم اي الذكر والنثى الصغير والكبير)
(5)"العطیۃ"کے معنی ہیں:مایعطی ومایوھب اور کبھی "الھبہ"کے معنی میں آتا ہے ۔اسی بنا پر عزیزی نے "العطیۃ" کی تفسیر:"الھبہ ونحوھا"کے ساتھ کی ہے۔اور عطیہ اور ہبہ عام ہے کوئی شخص کسی کو اپنی کل جائداد ہبہ کردے یا بعض۔بہرحال وہ شرعا لغۃ ،عرفا عطیہ ہے۔
مقصود حدیث کا یہ ہے کہ : تم اپنی اولاد ذکور و اناث کو عطیہ دینا چاہو تو سب کو برابر برابر دو (خواہ یہ عطیہ تمہاری کل مملوکہ جائداد ہو یا اس کا ایک جزء)دلیل شرعی پیش کرنا اوس شخص کے ذمہ ہے جو اس کے اطلاق و عموم کے خلاف اس سے جزووجائداد مراد ہونے کا مدعی ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب