سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(250) ورثاء میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں؟

  • 17576
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ : شیخ غلام سرور نے عرصہ ساٹھ سال کا ہوا انتقال کیا۔تو اپنے وارثوں میں دو فرزند: شیخ غلام جیلانی و شیخ غلام ربانی و دودختر: ایک مسماۃ حفیظ النساءدوسری وحیدالنساء اور ایک برادر حقیق:شیخ غلام حیدر اور دو بھائی سوتیلے مسمیان: شیخ غلام حسن اور شیخ محمد حسن چھوڑے۔سب سے پہلے مسماۃ حفیظ النساء نے انتقال کیا۔مرنے والوں  میں ایک اپنا خاوند:شیخ عنایت علی اور دو بھائی :شیخ غلام جیلانی و شیخ غلام ربانی و یک  ہمشیرہ:وحید النساء کو چھوڑا،مسماۃ حفیظ النساء کے خاوند شیخ عنایت علی نے انتقال کیا،وارثوں میں اپنی پھوپھی کے فرزند کا پوتا شیخ سمیع اللہ چھوڑا،بعدہ شیخ غلام جیلانی نے انتقال کیا،وارثوں میں  اپنا:ایک فرزند، شیخ عبدالحق اور ایک اپنا بھائی شیخ غلام ربانی اور ایک ہمشیرہ مسماۃ وحیدالنساء چھوڑا،اور ان کے بعد وحیدالنساء نے انتقال کیا،وارثوں میں ایک خاوند :شیخ غلام صفدر اور دو دیور:شیخ عبدالغنی و شیخ عبدالرزاق ایک اپنا بھائی : شیخ غلام ربانی اور ایک اپنا برادرزادہ:شیخ عبدالحق کو چھوڑا۔

شیخ غلام سرور کے وقت سے اس وقت تک کل جائداد زرعی و سکنی و قرضہ مشترکہ رہا۔مگر قرضہ شیخ غلام جیلانی و شیخ غلام ربانی کے وقت کا تھا۔شیخ غلام ربانی باہر  روزگار پر رہے اور روپیہ بھیجتے رہے۔شیخ عبدالحق خانہ نشین رہے،جائیداد باغ وغیرہ کا ترددکرتے رہے اور آمدنی لیتے رہے،جب آپس  میں قرض تقسیم ہوا تو نصف نصف روپیہ ہر دو صاحبوں کے ذمہ ہوا شیخ غلام ربانی اپنے نصف روپیہ قرضہ کو جوان کے ذمہ تھا جائداد مشترکہ کی آمدنی سے ادا کرنے کو عبدالحق سے کہہ کر باہر روزگار پر چلے گئے اور تاوقت تقسیم جائداد ،جائداد کی آمدنی سےکچھ تعرض نہ کیا۔اس کے بعد جس کو عرصہ آٹھ سال کا ہوا کل جائداد زرعی و سکنی ہر دو،چچا بھتیجے کے تقسیم ہوئے تو نصف نصف کرلی۔بروقت تقسیم جائداد سب قرضہ میں تنازع ہوا تو شیخ عبدالحق نے نصف روپیہ قرضہ کا جو ذمہ شیخ غلام ربانی بروقت۔۔۔۔۔شیخ غلام ربانی نے کہا کہ جو آمدنی جائداد کی تھی وقت تقسیم قرضہ سے اب تک اس میں میرے ذمہ کا قرضہ ادا ہوگیا،اور اگر نہیں ادا ہوا،تو جو وقت تقسیم قرضہ سے اب تک جائداد کی آمدنی ہے اوس کا حساب دو۔اور آمدنی وہ قرار پائی تھی کہ جو بروقت تقسیم قرضہ اوسط درجہ کی تھی۔شیخ عبدالحق نے حساب نہیں دیا اگر حساب دے دیتے تو ۔۔۔۔پس اس صورت میں شیخ غلام ربانی کا قرضہ ادا ہوا یانہیں؟َاگر نہیں تو اتنے عرصہ تک کی آمدنی جس کو شیخ غلام ربانی نے شیخ عبدالحق سے اس خیال میں کہ میرے ذمہ کا قرض ادا ہوجائے نہیں لیا۔آیا شیخ عبدالحق کو اس کا لینا جائز ہے یا نہیں؟

اب شیخ غلام ربانی نے انتقال کیا، وارثوں میں دو دختر : ایک فاطمہ بیگم دوسری عائشہ بیگم و ایک برادرزادہ:شیخ عبدالحق و ایک پوتی جس  کے والد نے اپنے باپ کی حیات میں انتقال کیا چھوڑے ،اور شیخ غلام ربانی نے قبل ازانتقال ایک وصیت نامہ بدیں مضمون تحریر کردیا کہ ہم دونوں چچا بھتیجا نے جائداد موجودہ بروقت تقسیم نصف نصف تقسیم کر لی تھی اور اب میرے وارثوں میں سوائے دو لڑکیوں کے اور کوئی وارث نہیں ہے، اور اب جو میرا قرضہ حال میں ہے وہ میرے وارث ادا کریں ،اور  جو میری چھوٹی لڑخی ناکتخدا ہے اس کی شادی میری جائداد کی آمدنی سے کی جاوے۔

اور عبداللہ کو میں چھوٹے سے پالا ہے اس نے میری بہت خدمت کی ہے،سب شریک شامل ہو کر چار روپیہ ماہوار کی اس کے ساتھ سلوک کرتے رہیں۔اگر ہماری تقسیم مذکور بالا بموجب شرع شریف کے ہوئی ہے تو بہتر ہے ،ورنہ ازسر نو کل جائداد کا تقسیم ہونا چاہیے اور جس جس کو جو حصہ پہنچے وہ ملنا چاہیے۔ اب سوال دریافت طلب ہے کہ جو ترکہ شیخ غلام ربانی کو مورث اعلی سے ملے گا یا جو خود اون کا بذاتہ ہے بعد انتقال شیخ غلام ربانی کے کون کون حصہ دار پانے کے مستحق ہیں؟ اور وصیت نامہ کس کس پر مؤثر ہوسکتا ہے؟اور اگر کوئی  وارث اپنی خوشی سے اپنا حصہ نہ لے تو وہ حصہ کیا کیا جاوے؟بینو اتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ احد الشریکین نے اگر دوسرے شریک کے حصہ میں تصرف کیا تو آمدنی دوسرے شریک کے حصہ کی ہے ، اس کو ادا کرنا واجب ہے اور خود اس کے لئے حرام خبیث ہےقال فى الفتاوى الحماديه : واذا اجروااخذ لاجر ينظر الى نصيب شريكه من الاجر يرد ذلك عليه ان قدر والايتصدق به لانه تمكن فيه خبث بحق شريكه وكان كالغاصب اذا اجر وقبض الاجر يتصد اوريرده على المغضوب منه اماما يخص نصيبه فيطيب له لانه لاخبث فيه انتهى انتھی عبارت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ احد الشریکین کے حصہ کی آمدنی دوسرے شریک کو حرام ہے، متصرف کو چاہیے کہ اپنے شریک کی آمدنی اس کو ادا کردے۔

صورت مذکورہ میں جب شیخ غلام ربانی نے شیخ عبدالحق سے کہا کہ جو ہمارے حصہ مشترکہ کی آمدنی ہے اس سے ہمارے ذمہ کا قرض ادا کردینا، یہ کہہ کر روزگار میں چلے گئے۔اس لئے یہ صورت تو کیل ہوئی یعنی:شیخ عبدالحق کو حصہ مشترکہ کی آمدنی سے قرضہ ادا کرنے کا وکیل بنایا،یہ تو کیل بموجب شرع صحیح ہوئی،(عربی) اور پر ظاہر ہے کہ شیخ غلام ربانی بنفسہ قرضہ اپنا آمدنی جائداد مشترکہ سے اد اکرسکتے ہیں،بنفسہ اس لئے تو کیل بھی صحیح ہوئی۔پس صورت مذکورہ میں حسب توکیل شیخ غلام ربانی ،شیخ غلام ربانی ،شیخ عبدالحق کو بمقدار اآمدنی حصہ شیخ غلام ربانی قرضہ ادا کرنا لازم ہے۔اگر قرضہ ادا کردیا تو فہو المراد ہے کہ حساب کرکے ذرہ ذرہ ورثاء شیخ غلام ربانی کو دے دیں،جیسا کہ عبارت مذکورہ بالا سے واضح ہے ،ورثاء بعد ادائے قرضہ مذکورہ جو بچے حسب حصص رسدی تقسیم کرلیں (قال فى الفتاوى الحمادية نقلا عن شرح الطهاوى: وكل عقد يتصرف فيه الموكل بنفسه يجوز فيه التوكل) اور جب آمدنی وہ قرار پائی تھی جو وقت تقسیم قرضہ اوسط درجہ کی تھی تو اب نزاع تعیین مقدار آمدنی میں بھی نہ رہا۔

اور شیخ غلام ر بانی و شیخ عبدالحق نے جو جائداد مورث اعلی یعنی: شیخ غلام سرور کی نصف نصف باہم تقسیم کرلی بموجب شریعت صحیح نہیں ہوئی،کیوں کہ اور ورثاء مورث اعلی محروم و بے نصیب رہ جاتے ہیں اور یہ ظلم ہے  ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ ( سورة البقره:190)

تفصیل اور نقشہ کے لیے کتاب کا مطالعہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 455

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ