السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنے حقیقی پسر کو 25 سال کی پرورش میں سے 19 سال تک تعلیم بی اے اور وکالت تک دلانے میں ہزارہا روپے خرچ کئے۔وکالت پاس کرنے کے بعد وکالت کا کام چلانے میں اس کی اعانت و مدد بھی کرتا رہا،وکیل مذکور نے اگست 1925ء میں وکالت کی کمائی میں سے باپ کو کچھ روپیہ دینا شروع کیا،قریبا تین چار سال تک ہزار یا دو ہزار کے قریب روپیہ تھوڑا تھوڑا کر کے باپ کو دیا،روپیہ دیتے وقت باپ بیٹے میں کوئی معائدہ اس قسم کا نہیں ہواتھا کہ یہ روپیہ امانت ہے،لڑکا کسی وقت واپس لے سکے گا یا باپ اس کو ادا کردے گا،بلکہ باپ اس خیال سے روپیہ لیتا رہا،جس خیال سے اچھے لڑکے کما کر باپ کو دیا کرتےہیں،اور والدین لے لیا کرتے ہیں،کوئی شاہد بھی اس بات کا نہیں ہے کہ روپیہ جو بیٹے نے باپ کو دیا تھا وہ امانت کے طور دیا لیا گیا تھا،اب لڑکا لوگوں کے ذریعے اور خطوط کے ذریعے کہتا ہے کہ میں نے بخیال خود اپنے والد کو روپیہ مذکورہ بطور امانت کے دیا تھا۔باپ کہتا ہے میں نے روپیہ امانت نہیں لیا تھا۔اس واسطے دینے کو تیار نہیں ہوں،کیوں کہ میں نے 25 سال تک پرورش اور 19 سال تک تم کو تعلیم اپنے خرچ سے دلائی ہے،جس میں 5 سال تو گھر میں رہا 14 سال بورڈنگ ہاؤس میں رہتا رہا۔مڈل انٹرنس بٹالہ میں پاس کیا، ایف اے ،بی اے وکالت لاہورمیں پڑھا اور بہت روپیہ خرچ ہوا،لڑکے کے حالت بہت اچھی ہے۔اب بھی وکیل ہے سینکڑوں روپئے ماہوار کماتا ہے۔ کسی قسم کا محتاج نہیں ہے۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ازروئے قرآن و حدیث لڑکا باپ سے اب وہ روپیہ لے سکتا ہے یا نہیں؟جب کہ باپ دینے کو تیار نہیں کیوں کہ وہ لڑکے پر ہزار بار روپیہ خرچ کرچکا ہے،باپ بڈھا ہے،لڑکا نوجوان ہے ؟
اگرچہ بیٹا باپ سے الگ رہ کر کسی پیشہ کے ذریعہ کما کر اپنے باپ کو کچھ رقم دے دے ،لیکن امانت کے طور پر دینے کی تصریح نہ کرے تو باپ سے اس رقم کے مطالبہ کا حق اس کو نہیں پہنچتا اور نہ باپ پر شرعاً اس رقم کا واپس کرنا لازم ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیٹے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ باپ سے اپنی کمائی کے دیئے ہوئے روپیہ کا مطالبہ کرے اور اس کو تنگ کرے،قرآن کریم میں ارشاد ہے :﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾(سورة لقمان :15)اور مشکوٰۃ شریف میں ہےوَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَصْبَحَ مُطِيعًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا. وَمَنْ أَمْسَى عَاصِيًا لِلَّهِ فِي وَالِدَيْهِ أَصْبَحَ لَهُ بَابَانِ مَفْتُوحَانِ مِنَ النَّارِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدًا» قَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ؟ قَالَ: «وَإِنْ ظلماهُ وإِن ظلماهُ وإِنْ ظلماهُ»
اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ تعالیٰ نے مجھے مال بھر دیا ہے اور اولاد بھی ،میرا باپ چاہتا ہے کہ میرا مال لے لے،آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:انت ومالك لابيك یعنی تیرے باپ کو تیرے کمائے ہوئے مال میں تصرف کرنے کا حق ہے،قال الحافظ فى الدراية اخرجه ابن ماجه من حديث جابر ورجاله ثقات انتهي واخرجه ابن حبان فى صحيحه من حديث عائشة والبزار فى مسنده والطبرانى فى حديث ابن مسعود وابو يعلى الموصلى فى مسنده والبزار من حديث ابن عمر.
ان تمام ادلہ قرآنیہ وحدیثیہ سے معلوم ہوا ہے کہ بیٹے نے اپنے باپ کو جو کچھ کما کردے دیا ہے،باپ سے اوس کے مطالبہ کا حق نہیں ہے،
ہاں باپ اپنی مرضی سے ،خوشی سے بصورت موجود ہو نے اس مال کے،بیٹے کو واپس کردے تو اور بات ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب