السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مرحوم بکر اپنی ایک دختر زبید بیوہ، اور ایک نواسی زیر نگرانی اور کچھ جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ چھوڑ مرا ہے،منقولہ جائیداد زر،زیور،نقدی وغیرہ تقریبا بیس ہزار ہوگی،جس کو مرحوم اپنی حین وحیات مہر بند کرکے خزانہ شاہی میں امانت رکھ گیا ہے جو عرصہ گذرا ،اور مرحوم باپ اپنی بیوہ ززبیدہ کو اس ملک مہر شاہی کا مختار وارث قرار دے گیا ہے۔عرصہ 4-5 برس کا گذرا کہ مرحوم بکر کے بڑے بھائی کے لڑکے عمر کی منگنی دختر زبیدہ بیوہ کی لڑکی ہندہ سے تین شرائط پر قرار پائی۔
پہلی شرط: یہ کہ جب میں چاہوں کی اس وقت لڑکی کا نکاح کروں گی۔دوسری شرط: یہ کہ جو املاک میرا باپ بکر چھوڑ مرا ہے وہ اس ملک کا لا دعوی لکھ دیں۔ تیسری شرط: جہیز مہر وغیرہ تھی ۔غرض یہ ثلاثہ شرائط کو نوشہ اور نوشہ کا باپ وغیرہ منظور کرلئے۔ چند روز کے بعد نوشہ عمر کی جانب سے تعجیل نکاح کا تقاضا ہوتا رہا،لیکن دخترکی جانب سے تاخیرہوتی رہی۔اخیر ایک روزنوشہ مع چند ہمراہی قاضی وغیرہ مکان عروس پر گئے اور پیام عقد خوانی سنایا،زبیدہ ہندہ عروس کی طرف سے نفی و ناراضگی کا اظہار ہوتا رہا، تب بغیر اجازت عم عروس و مادر عروس قاضی جبری نکاح پڑھ دیا،لیکن زبیدہ نے اپنی لڑکی ہندہ کو رخصت نہیں کیا،جس کو عرصہ4-5 برس کا گذرگیا۔اس عرصہ میں نوشہ عمر نے دوسری جگہ نکاح بھی کرلیا جس کے ایک دو اولاد بھی ہے اور نوشہ عمر اپنے تایا مرحوم زبیدہ کے باپ کی غیر منقولہ جائیداد پر جو زمینات ہے قابض ہے اور اپنا حق طلب کرتا ہے ،اور کہتا ہے کہ اگر اب بھی میرے نکاح میں آجائے تو میں کوئی چیز طلب نہیں کرتا۔چوں کہ منقولہ رقم خزانہ شاہی میں ہے اور غیر منقولہ پر خود عمر قابض ہے ،اب زبیدہ بیوہ کو سخت تکالیف کا سامنا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب زبیدہ مجبوراً اپنی دختر ہندہ کا نکاح عمر مذکور سے کر دینا چاہتی ہے، تو اس کے لئے پہلا جبری نکاح ہی کافی ہے یا ثانی نکاح کی ضرورت ہے؟حکم شارع بیان فرما کر ماجوراللہ اور عندالناس ممنون و مشکور ہوں؟
مرحوم بکر کے ورثہ اس وقت مندرجہ ذیل ہیں،ان میں کو ن حق دار اور کس کس کو کتنا ملنا چاہیے؟ازروئے شرع بیان فرمائیں اور اجر پائیں:ایک دختر زبیدہ،ایک نواسی ان بیاہی ،دوسری نواسی بیاہتا ہےجس کے چار بچے ہیں تین بھائی،و بہن جملہ بارہ /4 بچے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعدتقديم ماتقدم على الارث ورفع موانعهترکہ بکر مرحوم کا ترکہ چونسٹھ سہام پر منقسم ہوکر ازآنجملہ8سہام بکر کی بیوہ کو،اور 32 سہام(کل ترکہ کا آدھا)اس کی لڑکی زبیدہ کو ،اور چھ شہام ہر ایک بھائی کو ،اور تین ،تین سہام ہر ایک بہن کو ملیں گے دونوں نواسیاں محروم ہوں گی۔
واضح ہو کہ یہ تقسیم اس وقت ہے جب یہ بھائی اور بہن حقیقی ہوں۔صورۃ المسئلہ ھکذا:
بکر،
زوجہ بنت زبیدہ اخ اخ اخ اخت اخت بنت البنت بنت البنت 3 3 م م 6 6 6
نقشہ کے لیے کتاب کا مطالعہ کریں
صورت مسئولہ میں اگر زبیدہ دختر بکر بوقت نکاح بالغہ تھی ،اور اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر عمر نے اس سے نکاح کرلیا،تو یہ نکاح باطل اور لغو ہوا جس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔ارشاد ہے:لاتنكح البكر حتى تستاذن(ٍ بخارى)
زبیدہ کا ولی اس کے چچا ہیں اس کی ماں کو حق ولایت نکاح نہیں،لیکن یہ ولی بغیر زبیدہ کی اجازت ورضامندی کے اس کو کسی سے بیاہ دینے کا حق نہیں رکھتے ارشاد ہے: الايم احق بنفسها من وليها (2)بکر مرحوم کے ترکہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ میں سے اس کے تینوں بھائی حصہ شرعی مندرجہ بالا کے مطابق مستحق ہیں لیکن اپنے حصہ سے زیادہ پر اس لئے قبضہ کرلینا کہ زبیدہ عمر سے نکاح کرنے پر مجبور ہوجائے قطعاً ناجائز ہے۔
ارشاد ہے:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ﴾(سورة النساء:19)بہرحال پہلا نکاح جو زبردستی بغیر اجازت و رضامندی
زبیدہ کے کیا گیا ہےباطل ہے۔اب اگر زبیدہ راضی ہو اور اجازت دے،تو اس کے چچا متفق ہوکرولی ہونے کی حیثیت سے زبیدہ کا نکاح عمر سے کرسکتے ہیں ،اور اس صورت میں عمر کو چاہیے کہ نکاح کے ہر سہ شرائط پوررا کرے۔ المسلمون على شروطهم،ارشاد ہے احق الشروط ان توفوابه مااستحللتم به الفروج (بخارى)
واضح ہوکہ اگر بکر نے اپنی زندگی میں صحت و ثبات عقل و قائمی ہوش و حواس میں جائیداد منقولہ مذکورہ فو السوال اپنی بیوی و دختر زبیدہ کو ہبہ کردی تھی ،اور خزانہ شاہی میں بطور امانت رکھ دی تھی،اور ان دونوں کے لئے اس کی وصیت نہیں کی تھی،بلکہ صرف ہبہ اور تملیک مال کی صورت تھی ،تو اس ملک مہر شدہ کی مالک صرف اس کی بیوہ اور زبیدہ ہیں،اس میں وراثت نہیں جاری ہوگی ۔اور اگر وصیت کی شکل تھی جیسا کہ ظاہر سوال سے یہی معلوم ہوتا ہے تو یہ وصیت درست نہیں ارشاد ہے: لاوصية لوارث جائیداد غیر منقولہ کی طرح اس ملک مہر شدہ میں بھی وراثت جاری ہوگی۔
کتبہ: عبید اللہ المبارکفوری الرحمانی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب