سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) بیت المال کا قیام عندالشرع

  • 17554
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 1650

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) شرعی نقطہ نگاہ سے بیت المال کاقیام کیوں کر ہوسکتا  ہے اور اس کےشرائط کیا ہیں؟

(ب)کیا کسی امیر کےبغیر بیت المال بن سکتا ہے؟

(ج)بیت المال مرکز میں ہوتا ہےیابستی میں ؟بستی کابیت المال الگ بھی ہوسکتا ہے؟

(د)کیا رائج الوقت انجمنیں اپنے خزانہ کانام بیت المال رکھ سکتی ہیں؟

(ھ)کیاکوئی انجمن اپنے بیت المال میں ہر قسم کےصدقات خیرات زکوۃ جمع کرکےاس سے کتابیں چھاپ کر ان کی تجارت کرسکتی ہے ؟شرعایہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیت المال دراصل نام ہے اسلامی خزانہ کاجس کے مختلف شعبے ہوتے تھے۔اورہر شعبے کےمثارف جداگانہ اورالگ تھے۔(جس کاقائم کرنا اوراس کےمصارف پر صرف کرنا واجب تھا اورہے)مثلا ایک شعبہ بیت الخمس کےنام کا ہوتا ہے جس میں غنائم اوررکاز کے خمس جمع ہوتےتھے دوسرا شعبہ بیت الصدقات کاتھاجس میں زکوۃ وصدقات کے اموال جمع ہوتے تھے۔

تیسرا شعبہ بیت الخراج والجزیہ والفئی تھا ۔ چوتھے شعبے لقطے اورلاواث لوگوں کےترکےجمع ہوتے تھے۔بیت المال  کےقیام کےلیے اسلامی حکومت وامارت کاہونا شرط نہیں ہے۔جہاں اسلامی حکومت نہ ہووہاں بھی بیت المال  قائم ہوسکتا ہے اسکےلیے صرف جماعتی نظم اور نظام کاہوناضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جماعتی کانظم کاوجود بغیر سرداریاصدریاامیریاسربراہ اور اس کی سمع وطاعت کے نہیں ہوسکتا اوراسلام غیر منظم زندگی کامتحمل بھی نہیں پس جس مقام کےمسلمان اس قسم کانظم قائم کرکے ایک نظام میں مربوط ہوجائیں خواہ اس نظام کو انجمن یاجمعیت کہیں یاکچھ اوریاکوئی نان نہ رکھیں بہرحال وہ اپنے یہاں بیت المال قائم کرسکتے ہیں بلکہ ان کےلیے بیت المال کےبغیر چارہ نہیں ۔موجودہ وقت میں یہاں بیت المابل میںمویشیوں کی زکوۃ زمین کی بیدوار کی زکوۃ یعنی عشر نقد سونے اورچاندی کی زکوۃ مال تجارت کی زکوۃ فطرہ چرم قربانی نفلی صدقات لق’ے اورلاوارث لوگوں کےترکے جمع ہوسکتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ بیت المال کےلیے کوئی خاص عمارت اورمکانن متعین ہو۔آں حضرتﷺکےزمانہ میں اس کےلیے کوئی مکان نہیں تھکیوں کہ زکوۃ وعشر اورخراج کی جورقم آتی تھی وہ فورا تقسیم کردی جاتی تھی جمع اورمحفوظ رکھنےکی نوبت نہیں آتی تھی۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت ابوبکر ﷜نےبھی اپنی خلافت میں کوئی بیت المال نہیں بنوایا ۔بلکہ جوکچھ آیا اسی وقت لوگوں کوبانٹ دیا۔ہاں ابن سعد کی بعض روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نےبیت المال کےلیے مکان خاص کرلیا تھا لیکن وہ ہمیشہ بند پڑارہتا تھا۔

سب سے پہلے حضرت عمر فاروق ﷜ نےبیت المال کی عمارت کی بنیاد ڈالی اوردارالخلافہ(مدینہ منورہ) میں اسلامی خزانہ قائم کیا اوراس کےلیے باقاعدہ افسر اوردوسرے عملہ مقرر کئے ۔مدینہ کےعلاوہ تمام صوبوں اوراہم مقاممات میں بھی بیت المال قائم کئے۔معلوم ہواک مرکز کےعلاوہ دوسرے اہم مقامامات مثلاصوبوں اورضلعوں میں بھی بیت المال قائم کئے جاسکتے ہیں۔

ان مقامی وضلعی بیت المالوں یک رقوم کو ان کےمقامی مصارف میں صرف کرنے کےبعد جوکچھ بچے وہ مرکز میں منتقل کیا جاسکتا ہے جیساکہ حضرت عمر﷜ کی خلافت کےزمانہ میں یہی دستور تھا۔رائج الوقت اسلامی انجمنیں اورجمعیتیں بلاشبہ اپنے خزانوں کانام بیت المال رکھ سکتی ہےیں یہ نام اسلمی حکومت کےخزانے کےلیے نصا مخصوص نہیں ہے اورنہ اس پر کوئی دلیل وقرینہ موجود ہے۔پس مسلمان اس نظم  کےتحت جہاں کہیں ہوں رقوم مذکورہ بالاجمع کرکےاس کانام بیت المال رکھ سکتے ہیں۔صدقات وخیرات کی رقم فقراء ومساکین ودیگر مصارف منوصوصہ کاحق ہے انجمن یاجمعیت وصول کرکے وکالۃ ان اموال کو ان کے مصارف میں صرف کرنے کی ذمہ داری ہے۔

اس رقم میں ایس تجارت جس میں اصل کےاندر نقصان وخسارہ کاذرہ بھربھی اندیشہ ہو قطعا درست نہیں ہے۔خاص صدقات کی رقم سےتجارت کرنےکےبارے یں خلافت راشدہ کےزمانہ کاکوئی واقعہ  نظر سےنہیں گ.ار ہاں حضرت ابو موسی اشعریی ﷜ امیر بصرہ نےحضرت عمر ﷜کےدوصاحبزادوں عبیداللہ اور عبداللہ ﷢ کو بطورقرض کےبیت المال کی کچھ رقم جوغالبا جزیہ یاخمس غنائم کی تھی دی تھن کہاس ےتجارت کامال خرید کرمدینہ لے جائےیں اورفروخت کرکےاصل رقم امیر المومنین کےحوالہ کردیں اورنفع خود رکھ لیں۔حضرت عمر ﷜نےاس کو بسند نہیں کیا بھر بعض مصاحبین کےمشورہ سےاس کو مضاربت قراردے کر اصل رقم اورآدھا نفع بیت المال میں داخل کردیا اورآدھانفع دونوں لڑکوں کو مضارب ہونے کی حیثیت سےدے دیا۔

بیت المال کی جملہ رقوم اور آ؍د وخرچ کاباقاعدہ حساب وکتاب رکھنا ضروری ہے اس کےلیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے فقہا نے عاملین میں ساعی جامع محافظ سائق راعی حامل حاست کاتب کیال وزان عداد اوردوسرے اعوان  کو داخل سمجھا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الإمارة

صفحہ نمبر 431

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ