السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہے: انسان کوضرورچاہیے کہ کسی اچھے برہیز گار عالم کواپناپیر بنالے اس کےہاتھ پر بیعت ہوجائےاوربکر کاخیال ہے کہ کوئی ضرورت نہیں پیر مقرر کرنےکی، پیر توقرآن وحدیث ہےہےاسی کواپنا پیر بنالے۔ کون حق بجانب ہے؟اور اللہ ورسول کاکیاحکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی شخص کوبیر بنانا اوراس کےہاتھ بر بیعت کرناکسی مسلمان کےلیے بھی ضروری نہیں ہے ۔پیری مریدی کے ضروری ہونے کی کوئی شعری دلیل موجود نہیں ہے اورہندوستان کی موجودہ پیری مریدی تومسلمانوں کی اصلاح وتربیت اوردینی ودنیوی سربلندی وکامرانی کاذذریعہ بننےکے بجائے بالعموم صدقہ خوری اورنذارانےوصول کرےکےغریب مریدوں کی جبیں خالی کرنے کاذریعہ اورپور پیروں یک عیاسشی کاکامیاب وسیلہ ہے۔حکیم مشرق سر اقبال مرحوم نے سچ فرمایا ہے:
ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
اللہ اور اس کےرسول ﷺکایہ حکم ہے کہ ہرمسلمان صرف کتاب اللہ اورسنت صحیحہ کواپنے لیے اسوہ بنائے۔آں حضرت ﷺفرماتے ہیں:تركت فيكم امرين لن تضلوا ماتمسكتم بهما كتاب الله وسنة رسوله(موطا)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب