السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نص قرآن: ﴿إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا﴾سورۃ الانعام:145)بصیغہ حصر بتلاتی ہے کہ حلال مذبوحہ حیوانات میں سوائےدم مسفوح کےاورکوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کاکھاناناجائز ہو اورصحاح ستہ میں جوحدیث صحیح کایہ جملہ ہےکہ وماسکت عنہ فعفو اس سے بھی واضح ہے کہ کتاب اللہ نے جس چیزز کوممنوع اورناجائز نہیں بتایا ہے وہ حلال اورمباح الاکل ہے۔
آں حضرت ﷺ کےزمانہ میں برابر جانور ذبح ہوتےتھے۔ اور عام خوراک کی گوشت تھی اکر کوئی حثہ مکروہ ہوتاتوضرور محدثین اپنی کتابوں مین اس کودرج کرتے مگر کہیں نہیں ہے۔مگر درمختار میں ذیل کی حدیث ہے روی الاوزاعى عن واصل بن ابي جميلة عن مجاهد قال :كره رسول الله صلى الله عليه وسلم من الشاة الذكر الانثيين والقبل والغدة والمرارة والمثانة وادلدم پس عرض یہ ہے کہ اہل حدیث کے علما اسے مانتے ہیں یانہیں؟اوراوزاعی جس نے یہ حدیث روایت کی ہے ان کی بھی کوئی کتاب ہے یانہیں؟فقہاء کی حدیث قابل عمل نہیں ہےجب تک مححدثین کی کتابوں سے ان کاثبوت نہ ملے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی اپے فتوی 2/105میں لکھتے ہیں کہ ظواہر کتب سے معلوم ہوتاہےکہ کراہت اس کی حرام مغز کی تنزیہی ہےنہ تحریمی ۔حنفیہ حرام مغوز حصصیتن مصانہ پتا وغیرہ کی کراہت پردلیلیں پیش کرتےہیں:قالفي الحادي:والحرام منها واحد وهو الدم المسفوح لقوله تعالى (حرمت عليكم الميتة والدم الخ والباقى من السبعة مكروه لانه مما يستخبثه وما سوى ذلك مباح على اصله لان اصله لان الاصل فى الاشياء الاباحة انتهى
ليكن يہ دلیل قابل التفات واعتبار نہیں کیونکہ جب کسی جانور کو شریعت نےحلال ومباح کردیا تواس کےسارے اجزا ہمار ے لئے حلال وطیب ہیں اوراس کی کوئی چیز حرام وغیرہ طیب نہیں۔ہاں جس جز اورحصہ کوخود شریعت نےحرام یامکروہ بتلایا ہے وہ بلاشبہ حرام یا مکروہ ہوگا اورہمارےنفوس اورطبائع کابعض اجزا کومکروہ وخبیث سمجھنا کوئی چیز نہیں کہ نفوس یامکروہ بتلایا ہے وہ بلاشبہ حرام یامکرو اور حرمت اورکراہت واباحت کےمعاملہ میں انسانی نفوس وطبائع کومرجع نہیں قراردیا اورنہ ہم کواس کی اجازت دی کہ جس چیز کوہمار طبیعتیں خبیث خیال کریں تواس چیز کوہم شرعا حرام یامکروہ سمجھیں۔
دوسری دلیل مجاہد کی وہ روایت ہے جوسوال میں درج ہے لیکن یہ دلیل بھی علماء حدیث کےنزدیک قابل اعتبار دووجہ سے طبیعتیں خیال کریں تو اس چیز کوہم شرعات حرام یا مکروہ سمجھیں۔
دوسری دلیل مجاہد کی وہ روایت ہے جوسوال میں درج ہے لیکن یہ دلیل بھی علماء حدیث کےنزدیک قابل اعتبار نہیں دو وجہ سے اورل:اس حدیث کو امام ابو داود نے اپنی مراسیل میں روایت کیا جس کے الفاظ یہ ہےیں۔( عن مجاهد عن النبى صلى الله عليه وسلم كره من الشاة سبعا المثانة والغدة والذكر والحياء والانثيين(كتاب المراسيل ص45) اور حدیث مرسل کےقابل استدلال ہونےمیں علمائ سلف کااختلاف مشہور ہے۔
علماء اہل حدیث کے نزدیک راجح یہ ہے کہ حدیث مسرسل حجت نہیں۔امام شافعی بعض صورتوں میں اس کوحجت مانتے ہیں۔چنانچہ امام نووی مقدمہ شرح المہذب مین لکھتے ہیں :قال الشافعي واحتج بمرسل كبائر التابعين اذا اسند من جهة اخري اوارسله من اخذ عن غير رجال الاول اووافق قوله الصحابي وافتى اكثر العلماء بمقتضاه الخ(قواعد التحديث120)
در حقيقت يہ ہے کہ ان صورتوں میں کوئی صورت بھی مجاہد کی اس مرسل روایت کےبارے میں متحقق نہیں پس حدیث مرسل کےبارےمیں جن علماء امت نےاعتدال اورتفصیل کی راہ اختیار ک کی ہے ان کےنزدیک بھی یہ روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی۔
(2)اس مرسل روایت کی پوری سند ہمارے سامنے نہیں ہےمعلوم نہیں کہ اس کی سند کیسی ہے؟ اورجب تک یہ نہ معلوم ہوجائے ایسی حدیث سےکی چیز کی حرمت اوراکراہت نہیں ثابت کی جاسکتی ۔خلاصہ یہ کہ دونوں دلیلیں کراہت کی ناقابل اطمینان ہیں اوردم مسفوح کےعلاوہ حلال جانور کی کی چیز کی حرمت یاکراہت کسی صحیح یامرفوع روایت سےثابت نہیں اورآنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ وماسکت عنہ عفو(ابواداود وغیرہ) پس حلال جانور کےتمام اجزا ء علاوہ دم مسفوح حلال اورمباح ہیں۔
عبدالرحمن بن عمر الاوزاعی المتوفی 185ھ ملک شام کےبعت بڑے امام اورمجتہد فقیہ اورمحدث تھے ۔ستر ہرزار مسالئل اوراستفتا کےجواب دیئے ۔ ان کی کوئی کاب نہیں البتہ ان کے بعض رشائل کاتذکرہ کیاجاتا ہے جودنیا سے ناپید ہوگئے ہیں ۔ بے شک فقہاء کےکتابوں میں مدرج حدیث قابل اعتبار نہیں جب تک کہ ان کےسند نہ معلوم ہوجائے خواہ یہ فقہاء کتنے ہی جلیل القدر کیوں نہ وہوں قال على القارى فى رسالة الموضوعات ص:طبع القسطنطنية: حديث من قضى صلوته من الفرائش فى آخر جمعة من رمضان كان جابر لكل صلوة فائتة فى عمره الى سبعين منه باطل قططعا والاعبرة وعلا عبرة بنقل صاحب النهاية وغيره من بقية شراح الهداية فانهم ليسوامن المحدثين والا اسندوالحديث اليى احد من المخرجين انتهي
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب