السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نےازراہ جہالت ایک بکرا شیخ سدو کےنام منسوب کیا یاکچھ مٹھائی غیراللہ کےنام سے بولی ۔بکر نےاسے سمجھایا خدا نےاسے ہدایت دی اورتائب ہوگیا۔اب دریافت طلب امریہ ہے کہ اس منذر ورلغیراللہ بکرےکوزید توبہ کےبعد خدا کی راہ میں قربان کرسکتا ہےیاخود کھاسکتا ہےیانہیں؟استفسار کےسارے گوشوں بر غور فرماکر دلائل کےساتھ جواب تحریر فرمائیں تاکہ پچیدگی باقی نہ رہ جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ سدو کےنام منسوب کیا ہوبکرایامٹھائی اس طرح شیخ کبیر احمد کے نام منسوب کی ہوئی گائےتوبہ کرلینے یعنی تقرب لغیر اللہ کی نیت مرتفع ہوجانےکےبعد بالاتفاق حلال ہے۔منسوب کنندہ تائب کواختیار ہے کہاس نیت تقرب لغیراللہ سےتوبہ اوراس توبہ کی تشہیر کےبعد اللہ کےنام پر ذبح کرکے خود کھائےیافقراء ومساکین کوصدقہ وخیرات کردے۔خلاصہ یہ کہ صورت مسؤلہ میں زید بعد توبہ کی تشہیر کےبعد اللہ کے نام پرذبح کرکے خودکھائےیافقراء ومساکین کوصدقہ وخیرات کردے۔خلاصہ یہ کہ صورت مسؤلہ میں زید بعدتوبہ یہ بکر اللہ کےنام پرذبح کرکےخود کھائےیافقراومساکین کودیدے دونوں صورتیں جائز ہیں ۔علماء اہل حدیث ودیوبندیہ وبریلویہ ہرسہ کےنزدیک۔
تحقیق آیت: وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ودلائل بریلویہ:
برجواز ایں ذبیحہ مطلقا قبل ازتوبہ بنیت تقرب لغیراللہ وبعد توبہ عنوان میں ذکر کردہ آیت کاٹکڑا قرآن کریم میں چار جگہ مذکورہ ہے
(1)سورۃ بقرہ میں173﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾
(2)سورۃ المائدہ ﴿وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾
(3)سورۃ الانعام میں﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ﴾
(49)سوۃ نحل میں﴿ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾
جمہور مفسرین نےاس آیت میں اہلال سےمراد رفع صوت عندالذبح لیا ہے۔پس ان کےنزدیک اس آیت کامعنی یہ ہواکہ جوچیز غیر اللہ کےنام سےذبح کی جاوے وہ حرام ہے۔بریلوی مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ :مفسرین کی اس تصریح سےمعلوم ہواکہ اس جانور کی حرمت کامدار عندالذبح غیر اللہ کانام لیاجانا ہے۔پس اگرذبح کنندہ کےدل میں وقت یااس سےپہلے کچھ بھی ہو لیکن ذبح کےوقت باقاعدہ بسم اللہ شریف پڑھ کرذبح کرے تووہ ذبیحہ حلال ہوگا۔کیوں کہ علت حرمت(یعنی عندالذبح غیر اللہ کانام لیا جانا )نہیں پائی گئی۔یہ ان کی پہلی دلیل ہے۔
دلیل دوم: گوشت پکاکر مردوں کےنام لے کرصدقہ کرنابلاشبہ بالاتفاق جائز ہے۔اورشیخ سدو یاشیخ کبیر احمد یادیگر مردہ اولیا کےلئےنامزد کردہ جانور ذبح کرنے والے بھی یہی قصد وارادہ کرتے ہیں۔پس دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہ رہا اورپہلی صورت کی طریق یہ مختلف فیہ صورت بھی جائزہوگی۔
دلیل سوم:من ههنا علم ان البقرة المنذورة للاولياء كماهو الرسم فى زماننا حلال طيب لانه لم يذكر اسم غير الله وقت الذبح وان كانو ينذرونهالهم كذا فى التقسير الاحمدي للملاجيون الحنفى
دليل چہارم:سانڈوغیرہ کاکھاناحلال ہےمطابق آیاذیل: ﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ﴾﴿١٤٠﴾... سورةالانعام.جامع البیان مدارک ابو السعود میں مارزقهم الله سے بحائر وسوائب مرادبتایا ہے۔معلوم ہواکہ :یہ آیت سائبہ وغیرہ حرام کرنےوالوں کےبارہ میں نازل ہوئی ہے:﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴾(سورۃ البقرۃ:168)
جمل جامع البیان تفسیر کبیر ابو السعود میں لکھا ہےکہ یہ آیت سائبہ وغیرہ حرام ٹہرانےوالوں کےبارہ میں نازل ہوئی ہے۔
﴿مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ﴾سورۃ المائدہ:103)تفسیر کبیر مدارک جامع البیان کی عبارات سے واضح ہوتا ہےکہ اس آیت سےمقصود محرمین سائبہ وغیرہ کی تردید ہے۔یعنی یہ بتانا مقصود ہےکہ ان کےاس فعل سےجانور میں حرمت نہیں پیدا ہوتی اوروہ مثل سابق حلال ہے۔ونیز صحیح مسلم میں ہے عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حَلَالٌ وَإِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمْ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا وَإِنَّ اللَّهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ إِلَّا بَقَايَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَالَ إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِيَكَ وَأَبْتَلِيَ بِكَ وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُحَرِّقَ قُرَيْشًا فَقُلْتُ رَبِّ إِذًا يَثْلَغُوا رَأْسِي فَيَدَعُوهُ خُبْزَةً قَالَ اسْتَخْرِجْهُمْ كَمَا اسْتَخْرَجُوكَ وَاغْزُهُمْ نُغْزِكَ وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقَ عَلَيْكَ وَابْعَثْ جَيْشًا نَبْعَثْ خَمْسَةً مِثْلَهُ وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مَنْ عَصَاكَ قَالَ وَأَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ وَرَجُلٌ رَحِيمٌ رَقِيقُ الْقَلْبِ لِكُلِّ ذِي قُرْبَى وَمُسْلِمٍ وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِيَالٍ قَالَ وَأَهْلُ النَّارِ خَمْسَةٌ الضَّعِيفُ الَّذِي لَا زَبْرَ لَهُ الَّذِينَ هُمْ فِيكُمْ تَبَعًا لَا يَبْتَغُونَ أَهْلًا وَلَا مَالًا وَالْخَائِنُ الَّذِي لَا يَخْفَى لَهُ طَمَعٌ وَإِنْ دَقَّ إِلَّا خَانَهُ وَرَجُلٌ لَا يُصْبِحُ وَلَا يُمْسِي إِلَّا وَهُوَ يُخَادِعُكَ عَنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ وَذَكَرَ الْبُخْلَ أَوْ الْكَذِبَ وَالشِّنْظِيرُ الْفَحَّاشُ وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو غَسَّانَ فِي حَدِيثِهِ وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقَ عَلَيْكَ
ترجمہ: حضرت عیاض بن حمادمجاشعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا :"سنو!میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جو تمھیں معلوم نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ان کا علم عطا کیا ہے (اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے)ہر مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا (اس کی قسمت میں لکھا ) حلال ہے اور میں نے اپنے تمام بندوں کو( حق کے لیے) یکسو پیدا کیا پھر شیاطین ان کے پاس آئے اور انھیں ان کے دین سے دور کھینچ لیا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا انھوں نے اسے ان کے لیے حرام کر دیا اور ان (بندوں )کو حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس کے لیے میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی ۔اور اللہ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے(کچھ )بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا اور (مجھ سے)فرمایا:میں نے آپ کو اس لیے مبعوث کیا کہ میں آپ کی اور آپ کے ذریعے سے دوسروں کی آزمائش کروں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی دھو(کر مٹا) نہیں سکتا ،آپ سوتے ہوئے بھی اس کی تلاوت کریں گے اور جاگتے ہوئے بھی اور اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش کو( ان کے معبودوں اور ان آباء واجداد کے شرک اور گناہوں پر عار دلاتے ہوئے انھیں)جلاؤں میں نے کہا: میرے رب وہ میرے سر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روٹی کی طرح کر دیں گے۔تو(اللہ نے)فرمایا:آپ انھیں باہر نکالیں جس طرح انھوں نے آپ کو باہر نکالا اور ان سے لڑائی کریں ہم آپ کو لڑوائیں گےاور (اللہ کی راہ میں)خرچ کریں آپ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکربھیجیں گے اور جو لوگ آپ کے فرماں بردار ہیں ان کے ذریعے سے نافرمانوں کے خلاف جنگ کریں۔(پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:اہل جنت تین(طرح کے لوگ)ہیں ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ اور ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے اور وہ عفت شعار(برائیوں سے بچ کر چلنے والا)جو عیال دارہے،(پھر بھی) سوال سے بچتاہے ۔فرمایا :"اور اہل جہنم پانچ (طرح کے لوگ )ہیں وہ کمزور جس کے پاس (برائی سے) روکنے والی (عقل عفت ،حیا،غیرت)کوئی چیز نہیں جوتم میں سے (برے کاموں میں دوسروں کے)پیچھے لگنے والے لوگ ہیں (حتیٰ کہ)گھر والوں اور مال کے پیچھے بھی نہیں جاتے(ان کی بھی پروا نہیں کرتے) اور ایسا خائن جس کا کو ئی بھی مفاد چاہے بہت معمولی ہو۔ (دوسروں کی نظروں سے) اوجھل ہوتا ہےتووہ اس میں (ضرور)خیانت کرتاہے۔ اور ایسا شخص جو صبح شام تمھارے اہل وعیال اور مال کے بارے میں تمھیں دھوکادیتا ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخل یا جھوٹ کا بھی ذکر فرمایا ۔"اور بدطینت بد خلق۔"اور ابو غسان نے اپنی حدیث میں یہ ذکر نہیں کیا:"آپ خرچ کریں تو عنقریب آپ پر خرچ کیا جا ئے گا۔"
حاصل مطلب یہ ہےکہ آں حضور ﷺنےفرمایا:میرے رب نےحکم دیا ہے کہ تم جوبات نہ معلوم ہو وہ بتلاؤں اس میں سے یہ ہےکہ بندے کوجوچیز میں نے دی ہے وہ حلال ہے مگر شیاطین آتےہیں اورمیری حلال کی ہوئی چیز کوحرام کردیتےہیں۔
لمعات میں ہےقوله :حلال له:لايستطيع ان يحرمه من تلقاء نفسه هو انكار لماحرمو على انفسهم من اليحيرة والسائبة والوسيلة
لمعات میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہےکہ:بندے کےلئے جوچیز حلال من عند اللہ ٹہرائی گئی ہے اس میں بندے کواختیار نہیں ہےکہ اپنی طرف سے اسے حرام کرے۔
دراصل جن لوگوں نےبحیرہ سائبہ وسیلہ کواپنے اوپرحرام کرلیا تھا ان کےاس فعل کی تردید کی گئی ہے۔
پس جس طرح ان آیات کی روسے سانڈ وغیرہ حلال ہےاس طرح شیخ سدو یاسید کبیر احمد کےنام چھوڑا ہوابکرایاگائے بھی حلال ہوگی کیوں کہ دونوں غیر اللہ کےنام منسوب اورمتروک ہونےمیں برابر ہیں۔بریلوی کہتےہیں کہ :ان ہرچہار دلائل سےمعلوم ہواکہ یہ بکرامطلقا حلال ہے خواہ منسوب کنندہ ابنے اس فعل سےتائب ہویانہ ان دلائل کی تردید استقلا لا آگے آئے گی۔
تحقیق آیت:﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ مطابق مذہب حق وجوبات مخالفین۔
لغت میں اہلال کےمعنی رفع صوت کےہیں یامطلق نام زد کردینےکے كما لايخفى على من له ادنى مما رسة بكتب الغلة ومواردمادة هذا لفظ فى الحديث والادب والعربى ۔پس آیت کےمعنی یہ ہوئے: اور اللہ نےاس جانور کو حرام کیاہے جوبہ نیت تقرب وتعظیم غیر اللہ کےنام زد کردیاگیا ہویااس چیز کوجو اللہ کےسوااورکسی کےنام سے پکار ی گئی ہو۔اس تحقیق کی روسے ثابت ہواکہ جانور یاکسی چیز کی حرمت کی علت اورمناط غیر اللہ کےتقرب کی وتعظیم کی نیت سےغیر اللہ کے نام سے اس جانور یاچیز کانامزد کردیناہے۔پس اگر ایسے جانور کوجسے غیر الہ کےتقرب وتعظیم کےلئے نام زد کردیاگیا ہے۔اسی غیر اللہ کےتعظیم وتقرب کی نیت دل میں رکھ ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا عند جمہور المحدثین والفقہا والحنفیہ)عام ازیں کہ وقت ذبح اللہ کانام لیاجائے یانہ۔بوقت ذبح بسم اللہ کہنے سےوہ حلال نہ ہوگا۔جب کہ دل میں نیت غیر اللہ کےواسطے ذبح کرنےکی ہےاس لئے کہ عوام ایسے جانور کےذبح میں غیر اللہ کی تعظیم وتقرب کاقصد کرتے ہیں اورمحض عارتاورسما بسم اللہ بھی پڑھتے ہیں اوراعتبار نیت کاہے نہ ظاہر الفاظ کا۔انما الاعمال بالنیات
جواب دلیل اول:شاہ عبدالعزیز قدس سرہ فرماتےہیں لفظ ایں است کی درچہار جاازقرآن مجید وار شدہ تامل باید کرکہ مااهل به لغير الله فرموده نه
خلاصه یہ ہے کہ اہلال کےمعنی ذبح کرنےکےنہیں ہیں۔پس جوجانور غیراللہ کےلئے نامزد کردیا گیا اورتقرب اللہ کی نیت موجود ہےاوربوقت ذبح اللہ ہ یکے نام پر کیا جائے پھر بھی یہ جانور حلال نہ ہوگا۔
باقی مفسرین کا مااہل بہ لغیر اللہ کےمعنی ماذبح لغیر اللہ یاذبح علی اسم غیر اللہ کےساتھ بیان کرنا یعنی عند الذبح کی قید بڑھانی سوااس کایہ ہےکہ اس تفسیر سےحصر لازم نہیں آتا بلکہ یون کہاجائےگا اسی حرام کاایک فرد یہ بھی ہے۔چوں کہ جاہلیت میں اسی کارواج تھااس لئےیہ تفسیر کردگی غایت مافی الباب یہ تفسیر مذکور دوسرے فرد سےساکت رہے گی اور اس میں کچھ حرج نہیں جبکہ اس کی حرمت کےاوردلائل موجو د ہیں کماسیاتی
دوسرا جواب یہ ہے کہ:آپ عام ہےاس کی تحقیق بقید ذبح بغیر دلیل کےجائز نہیں ہوسکتی کیوں کہ اطلاق کی تقید عند امہل الاصول نسخ ہے اورنسخ جب حدیث ظنی خبر واخد مرفوع صحیح سےنہیں ہوسکتی عند اہل الاصول توکسی کےقول سےجوادلہ اربعہ میں سے نہیں کیوں کرہوسکتی ہے۔بس مفسرین کےقول کی توجیہ بجز اس کےاورکچھ نہیں ہوسکتی کہ یہ قید احتراز نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس وقت جاہلیت میں وقت ذبح بھی غیر اللہ کانام لیتے تھے پس یہ قید بطور بیان عادت جاہلیت ہےنہ احترازی ۔
تیسرا جواب یہ ہےکہ:سورۃ مائدہ میں مااہل لغیر اللہ بہ کےبعد ماذبح علی النصب جدا فرمایا ہےجس سےصاف معلوم ہوتا ہےکہ دونوں کےمفہوم میں فرق ہے۔یعنی اول سےمرادیہ ہے کہ جس کوغیر اللہ کے تقرب وتعظیم کےلئے غیر اللہ کےنام سےپکار اورشہر دیا گیا ہووہ حرام عام ازیں کہ وقت ذبح غیر اللہ کانام لیاجائےیا اللہ کانام۔
جواب دلیل دوم :حضرت شاہ عبدالعزیز فرماتےہیں:
خلاصہ یہ ہےکہ دونوں صورتوں میں بون بعید اروفرق عظیم ہے۔صورت مختلف فیہ کوئی منسوب کنندہ بجائےاس جانور کےاس سے دونی قیمت کی چیز سےبھی ایصال ثوابت کےلئے تیار نہیں ہوتا اوراستبدال میں اندیشہ ان بزرگوں کی ناراضگی کاسمجھتا ہےجس سے صاف ظاہر ہےکہ مقصود ایصال ثواب نہیں ہے بلکہ تقرب اس بزرگ کی ہے پس قیاس باطل ہے۔
جواب دلیل سوم:اس کاجواب خود اس کے منہیہ سےظاہر ہے کہ ملاجیون نےتاویل ایصال ثواب کی بناحلت کاحکم لگایا ہےاوربلاتاویل حلال نہیں کہتے جیساکہ اس قسم کی تاویل سے امام نووی نےحدیث لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ کی شرح میں مذبوح لقد دم الامیر کی حرمت(اگرچہ بوقت ذبح اللہ کانام لیا گیا ہو) شیخ ابراہیم شافعی مروزی شافعی کےقول سےنقل کرنے کےبعد رافعی کاقول نقل کیا ہے توجہاں یہ تاویل یقینا منفی ہواس کوکسیے حلال کہاجائے گا؟اورعوام کایہ فعل قابل تاویل نہیں ہے۔کمامرفی جواب الدلیل الثالث
نیزملاجیون کویہاں ہدایہ کی اس عبارت سےدھوکہ ہوا ہے اوراس کےسمجھنےمیں غلطی اورغفلت ہوگئی ہے۔ قول ملاجيون المذكور مبنى على الغفلة عن قول صاحب الهداية4/420:والثالثه: الثالثة: أن يقول مفصولا عنه صورة ومعنى بأن يقول قبل التسمية وقبل أن يضجع الذبيحة أو بعده، وهذا لا بأس به لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال بعد الذبح: "اللهم تقبل هذه عن أمة محمد ممن شهد لك بالوحدانية ولي بالبلاغ" والشرط هو الذكر الخالص المجرد على ما قال ابن مسعود رضي الله عنه جردوا التسمية حتى لو قال عند الذبح اللهم اغفر لي لا يحل لأنه دعاء وسؤال، ولو قال الحمد لله أو سبحان الله يريد التسمية حل، ولو عطس عند الذبح فقال الحمد لله لا يحل في أصح الروايتين. لأنه يريد به الحمد على نعمه دون التسمية
والدلیل على غفلة صاحب التفسير الاحمدى عن هذاالقول ان الانفصال المعنوى كيف يتصور اذا كان النذر للا ولياء؟فانه عين التقرب لهم فنيتهم دائمة الى وقت الذبح فلا انفصال معنى اصلا لما تقرر فى قواعد الفقه من استدامة النية الى آخر العمل.
وايضا ونقل صاحب الهداية المسئلة فيما اذا لم يكن المذكور مقرونا بقصد التقرب الى الغير وذكر ذكرامجردا من غيرقصد التقرب الى غير الله تعالى فانها حرام مطلقا فغفل صاحب التفسير الاحمدى ولم يفرق بين الذكر المجرد الذى وضع صاحب الهداية المسئلة فيه وبين ماقصد التقرب فيه الى غيرالله الذى وضعنا المسئلة فيه واين هذا من ذاك؟فافهم وتامل بالتامل الصادق
جواب دلیل رابع: بے شک ان آیات واحادیث سےسانڈ کی حلت ثابت ہےاوراگر سانڈ چھوڑنے والے اجازت دیں اورکھانے سےناراض نہ ہوں جوعلامت ہےاس کےساتھ ان کےحق کےباقی نہ رہنے کی تومسلمان اس کوکھابھی سکتےہیں لیکن سانڈ پر منذور لغیر اللہ کو شخی سدو کابکرایاسید احمد کبیر کی گائے یا اورکوئی چیز)قیاس کرناصحیح نہیں ہے۔کیوں کہ جاہلیت کےزمانہ میں کفار کی تحریم سائبہ وصیلہ اوراس تحریم میںمدعی میں فرق ہے
اول:یہ کہ وہاںتحریم کامعنی ہے:ایسا فعل کرنا جس سےحرمت پیداہوجائے جیسے خود سانڈ وغیرہ کوچھوڑنا اوریہاں تحریم کے معنی ہیں کہ :جب کوئی ایسا فعل کرے توحرمت کا حکم ہوجائے گا۔
دوسرے:ان کی تحریم اس جانور کےادب وتعظیم کےاعتقاد سےتھی اوریہ تحریم اس جانو ر کے خبث ونجاست سے ہے۔
تیسرے :یہ کہ وہ تحریم ان کے اعتقاد میں مؤبد تھی کہ کسی قابل ارتفاع نہ تھی اور یہ تحریم غیر مؤبد ہے کہ جب توبہ کرے مرتفع ہوجائے اور مرتفع کردیناواجب بھی ہےپس اس تحریم کی نفی یانہی یا انکار سے اس تحریم کی نفی لازم نہیں یا اس تحریم کی نفی یانہی یا انکار سے اس تحریم کی نفی لازم نہیں آتی۔
دلیل اصل جواب: آیت کے جو معنی ہم بیان کئے ہیں اس کوشاہ عبدالعزیز صاحب نےاختیار کیا ہے ملاحظہ ہو تفسیر فتح العزیز1/691بابت تفسیر آیت مذکورہ۔منذور لغیر اللہ کی حرمت کی اصلی علت اورعدم اباحت کامناط قصد تقرب غیر اللہ کا ارادہ ونیت تعظیم غیر اللہ کی ہے پس جب تک اس جانور کےمتعلق یہ نیت ہوگی حرمت قائم رہے گی اورجب دل سے یہ نیت دور کردی جائے توبوجہ عدم وارتفاع علت حرمت وہ جانور مباح اورحلال ہوجائے گا۔مولانااشرف علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں : البتہ اگر اس طرح نامز کردینے کےبعد اس سےتوبہ کر لے توپھر وہ حلا ل ہوجائے گا۔(تفسیر بیان القرآن1/86)
مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری صاحب بذل المجہود لکھتے ہیں:الحق جوجانور مقرب لغیر اللہ کیا گیا ہوحرام ہےتاوقتیکہ غیر اللہ کاتقرب مرتفع نہ ہوحلال نہ ہوگا۔اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کانام لے کرذبح کیاہو۔اس عبارت سےواضح ہے ک ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے اورغیر اللہ کےتقرب وتعظیم کاارادہ مرتفع ہوجائےتوہ جانور حلال ہوجائے گا۔
حضرت میاں صاحب تحریر فرماتے ہیں: لیکن اگر کسے جاندار ے رابرائے ذبح لغیر اللہ مقرر سازدوعندالذبح قصد تقرب بغیر خدا دورکند وخالصاآن راذبح سازودآئے الان نیت سابقہ حکم عدم وبطلان خواہد گرفت وذبیحہ بیشک حلال خواہد
اس آیت کی تفسیر حضرت شاہ قدس سرہ بہترین لکھی ہے۔کتاب ملے توضرور مطالعہ کریں توبہ کےبعد حلت کی دلیل میں یہ حدیث بھی ذکر کی جاسکتی ہے انما الاعمال بالنیات ولکل امری مانور حرمت تقرب لغیراللہتھی اورجب یہ نیت مرتفع ہوگئی تو اب حرمت کی کوئی وجہ نہیں رہی ۔ہنیر اللہ تعالی فرماتاہے:﴿ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ﴾...سورۃ البقرہ:275
امید ہے کہ اس تفصیل کےبعد اس مسئلہ میں کوئی الجھاؤ باقی نہ رہ جائے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب