السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قربانی اورعقیقہ کےگوشت سےشادی میں مہمانوں کی ضیافت کی جاسکتی ہے؟
(2)قربانی کاگوشت غیرمسلم حکام افسران اورامراءیافاسق وفاجر مسلمانوں کودیا جاسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی شرعا ایک مالی قربت اورطاعت وعبادت ہےاوریہ قربت وعبادت اسوقت ہوگی جبکہ قرباین کرنے والے کی نیت اور اس کامقصد اصلی اوربالذات محض اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی کےلیے معینہ دنوں میں بےعیب قربانی کےجانور کاخون بہانا ہےگوشت کھانا اورکھلانا اصلی نہ ہو ورنہ وہ گوشت کھانےکاجانور ہورکرہ جائے گا قربانی کاجانور نہیں ہوگا۔
عقیقہ کااصل اورصحیح وقت بچہ کی بیدائش کاساتواں دن ہے اورایک کمزورروایت کےمطابق اس کےبعد چودہواں اوراکیسواں دن ہے بغیر عذر معقول اورمجبوری کےعقیقہ ساتویں دن سے اٹھاکر شادی کے موقع پرکرنا غلط کام ہے۔اسی طرح قربانی کوپہلے دن سے جوبہرحال افضل ہے محض شادی کی دعوت کےارادے سے موخر کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ایسا کرنا علامت ہےاس امر کی کہ قربانی کرنے والٰے کی نیت قربانی خالص طلب رضا الہی نہیں ہے بلکہ تبعا ایساکرلیا جائےتوچنداں مضائقہ نہیں یعنی:کبھی قربانی کےمعینہ دنوں میں سےکسی دن شادی رکھ لی جائے اورقربانی کےگوشت سےدعوت کافائدہ اٹھالیا جائے تومضائقہ نہیں ہوگا۔
قربانی کےگوشت کےبارے میں بہتر یہ ہے کہ اس کوتین حصے کیے جائیں ایک حصہ گھر والوں کےلیے دوسرا حصہ دوست واحباب وقرابت داروں کےلیے اورتیسرا فقرا ومساکین اورسائلین کےلیے ۔
قربانی کاگوشت غیر مسلم بے عمل ضرورت مند بلکہ بد عمل مسلمان کودیا جاسکتا ہے واللہ اعلم
مکتوب
٭عقیقہ بلاشبہ سنت موکدہ قدرت اور وسعت ہوتےہوئے چھوڑنا نہیں چاہیے۔اگر کسی واقعی مجبوری اورعذر کی وجہ سے وقت مقررپرنہ کیاجائے۔واس کےبعد جب کبھی موقع ملے کردیناچاہیے۔رہ گئی بات کہ کرنے اورنہ کرنے پر کیاحکم مرتب ہوتا ہے؟توکرنےپرکسی خاص ثواب اوراجر وغیرہ کاذکر نہیں آیا اورنہ کرنےپریہ جملہ کچھ روشنی ڈالتا ہے:لااحب العقوق اورعقیقہ کی حکمت وفلسفہ کرنے کے لئے امام ابن القیم کی کتاب تحفۃ المودو کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب