السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کسی بزرگ یاآنحضرت ﷺ کےنام قربانی کرناچاہتا ہے لیکن ا س کی مالی حالت ایسی نہیں کہ ایک حصہ سے زائد قربانی کرسکے؟
بکر کہتا ہے کہ مالک کااپنی طرف سے قربانی کرناضروری ہے۔بغیر اپنی طرف سے کئے ہوئے کسی مردہ کی طرف سے قربانی کرنے پراکتفا کرنادرست نہیں۔مگر زید غریب ہےاپنے کسی بزرگ کےنام یعنی :دوقربانی کی حیثیت نہیں رکھتا۔توکیا ایسی صورت میں زید صرف کسی بزرگ کےنام قربانی کرسکتا ہے؟یااسے بھی لازمی طور پر اپنی طرف قربانی کرناہوگی؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی اصل میں زندہ شخص پر ہے اگر وہ وسعت رکھتا ہے توعید الاضحی کےدنوں میں اللہ تعالی کےلئےاپنی طرف سے جانور کی قربانی دے اوراگر مزید گنجائش رکھتا ہوتواس کومردہ کی طرف سے قربانی کرنے کی محض رخصت واجازت ہے۔کسی شخص پرمردہ کی طرف سے خواہ وت اس کا اپناعزیز ہویا کوئی اجنبی بزرگ یا آں حضرت ﷺ ۔قربانی کرناتوواجب ہے نہ سنت موکدہ۔
پس اپنی طرف سے قربانی نہ کرنااوراپنی بجائےمردہ کی طرف سےقربانی کرناخلاف اصل ہےاورواجب یاسنت موکدہ پرایک مباح چیز کومقدم کرناترجیح دینا ہےجوشرعا غلط ہے۔
ونیز جن بعض احادیث سےمردہ یک طرف سے قربانی کرنے کی اجازت واباحت ثابت کی جاتی ہے ان میں اس کےساتھ خود اپنی طرف سےقربانی کرنے کی تصریح موجود ہے۔لہذا اپنی طرف سےقربانی نہ کرنا اوراپنی طرف کرنےکی بجائے مردہ کی طرف سے قربانی کرنا احادیث کے بھی خلاف ہے واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب