سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) زمین کہنے پر دینا

  • 17511
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1147

سوال

(185) زمین کہنے پر دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص عبدالکریم دوسرے شخص عبدالقارد سےکہتا کہ میں سخت ضرورت مند ہوں۔تم مجھ کوپچاس روپیہ دواوراس کےبدلے میری جائداد کاکچھ حصہ لےلو۔جب میں تمہیں روپیہ واپس کروں گااس وقت جائداد واپس لےلوں گا۔اوراگر زیادہ دیرلگے توروپیہ یاچارورپیہ فی سال کٹتا جائے گااوراس طرح سارا روپیہ ختم ہوجائے گا۔پھر میں اپنی جائدا واپس لے لوںگا۔کیا یہ معاملہ رہن کاشرعا جائز ہے؟

2۔اوراگر کوئی شخص یہ کہے تم مجھ کوچالیس روپیہ دواورا ن کےبدلہ میں میری جائدا کاکچھ حصہ آٹھ سال کےلئے لے لو۔ہرسال پانچ روپیہ کٹتا جائےگا اورآٹھ سال کےبعد میں زمین لے لوگا ۔کیا یہ جائز ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔رہن کایہ طریقہ ناجائز ہے۔اولااس لئے راہن مرتہن سےکہتا ہےکہ جب میں تمہیں روپیہ واپس دوں گا اس وقت اپنی مرہونہ جائداد واپس لوں گا۔توجب تک راہن روپیہ واپس نہ کرے مرتہن اس کی مرہونہ جائدا د سے فائدہ اٹھاتارہےگااوریہ قرض جرمنفعہ میں داخل ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے کیوں کہ کھلا ہواسود ہے۔

ثانیا:اس لئے کہ جائداد مرہونہ کی آمدنی اورپیداوار کالحاظ کئے بغیر ہر سال صرف دوچار روپیہ کٹنے کی تعیین صحیح نہیں۔کیونکہ اس صورت میں بھی سود کاقوی امکان ہے۔ہوسکتا ہے کہ پیداوار کسی سال کم ہواورکسی سال زیادہ۔ونیز ہ وسکتا ہے کہ پیداوار اورآمدنی مرتہن کےکل اخراجات سے اوردوچار روپیہ سےجس کوراہن کٹواناچاہتا ہےکئی گنازیادہ ہو۔تومرتہن اپنےاخراجات اورکٹنےوالے دوچار روپیہ سےجس قدر زیادہ اپنے پاس رکھے گا قرض جر منفعہ میں داخل ہونے کی وجہ سےسود ہوگا۔

ج2۔یہ دوسری صورت رہن کی  اس شرط کےساتھ جائز ہےکہ ہر سال پانچ روپیہ کٹنے اوروضع ہونے کی تعیین نہ کی جائے اورنہ رہن ک مدت مقررکی جائےبلکہ یوں معاملہ رہن کاکیا جائےکہ مرتہن کےاخراجات سے جس قدر زیادہ پیدوار ہوگی وہ ین میں محسوب ہوتی جائےگی خواہ وہ دوروپیہ کی ہو یاآٹھ کی یاپانچ اورخود دوسال میں ہی قرض اترجائےیا چار سال میں

عن روى عن سمرة مرفوعا من ارتهن ارضا بدين عليه فانه يقضى من ثمرتها مافضل من نفقتها يضي ذلك من دينه(رواه الطبرانى فى الكبير قال الهيثمي قال فى مجمع الزوائد فى اسناده مساتير وفى ومسند عبدالرزاق عن طاووس قال في كتاب معاذ بن جبل: "من ارتهن أرضا فهو يحسب ثمرها لصاحب الرهن كنزالعمال248/3)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الرہن

صفحہ نمبر 383

محدث فتویٰ

تبصرے