سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) تاوان کی رقم شرعاً جائز ہے؟

  • 17506
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 775

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نےبکر سےایک مکان کامسودہ بایں شرط کیاکہ بکراپنامکان قیمتی دوہزار روپیہ کامیرے ہاتھ فروخت کرے جس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ زید بکر کومبلغ دوصدروپیہ بطورپیشگی یامسودہ پکاکرنےکی غرض سے(جیساکہ آج کل رواج ہے)تحریر دےکہ بکر اس مکان کوایک ماہ زید میں زید کےحق میں بیع نامہ کےذریعہ منتقل کردے۔اگر نہ کرے توزید کواس کے زر پیشگی دوصدروپیہ اورعلاوہ اس کےصدروپیہ اوربطور تاوان کےبکر کودینےہوں۔

بکرنےخلاف معاہدہ اس مکان کودوسرے شخص کےہاتھ بیچ دیا۔جس میں اس کومبلغ سات سوروپیہ منافع ہوا۔

دوباتیں دریافت طلب ہیں۔

1۔زیدکوبکرسےصدروپیے تاوان کے ملے وہ رقم شرعا جائز ہے؟

2۔بکر کو-700/روپیہ منافع ہواس میں سےکچھ یاکل کازید مستحق ہے؟جواب مدلل ہو


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں زیدبصورت خلاف ورزی معاہدہ اپنی پیشگی دئیے ہوئےدوصد روپئے کےعلاوہ مزید دوصد روپئے بطور تاوان کےبکر سےوصول کرنےکی شرط لگانی درستی نہیں تھی اس لئے زید کوبکر سےتاوان کےجودوصدروپئےحاصل ہوئے ہیں شرعا زید جائز نہیں ہے۔

آں حضرتﷺنےارشادفرمایا:المسلمون على شروطهم الاشرطا حرم حلالا واحل حراما(ترمذى ابن ماجه وغيره اورارشاد فرمايا:مابال رجال يشترطون شروطا ليست فى كتاب الله ماكان من شرط ليس فى كتاب الله فهوباطل وان كان مائة شرطا قضاء شرطاقضاء الله احق وشرط الله اوثق(بخارى وغيره)

معلوم ہواکہ مسلمانوں کی اپنی شرطیں پوری کرنی چاہئے لیکن جوشرط حلال کوحرام اورحرام کوحلال کردینی والی ہویاشریعت سےاس کاجواز اباحت کے بجائے ممانعت ثابت ہوتی شرعا لغو اورکالعدم ہےے اوراس سےاجتناب ضروری ہےایک مسلمان کےلئے دوسرے مسلمان کامال حلال ہونےکےلئے شریعت نےجوصورتیں بتائی ہیں وہ بیع بالتراخی یاہبہ یاقبول صدقہ یامیراث ہےاورظاہر ہےکہ صورت مذکورہ میں دوصد روپئے کی بطور تاوان کےشرط لگانی نہ بیع کی شکل ہےنہ ہبہ کی۔نہ صدقہ وغیرہ کی پس یہ شرط ماکان شرط لیس فی کتاب اللہ فہو باطل کےاندر داخل ہونےکی وجہ سےممنوع ہےاورناجائز اورباطل ہوگی اورایسی شرط کےذریعہ جومال حاصل ہووہ اکل مال بالباطل کے اندرداخل ہوگا۔

ارشاد: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (29)

ونيزاگرابوبکر اس مکان کوزیدسےپیشگی دوسوروپے لینے کےبعد زید کےہاتھ فروخت کرتا ظاہر ہےکہ یہ دوصد روپئے(جوزید نےتحقیق بیع یعنی بیع نامہ کی تحریر سےپہلے بکر کوبغرض پختگی معاملہ یعنی محض اس لئےدے دئیے ہیں کہ بکر یہ مکان کسی دوسرے شخص کےہاتھ فروخت نہ کرے)مکان کی اصل قیمت 2ہزار میں محسوب ہوجائےاوریہ بیع صحیح ہوجاتی (لعدم وجود شئی یفسد البیع اوراگر زید خود اس مکان کوخریدنےسےانکار کرلیتایابکر معاہدہ کاخلاف اس کےہاتھ بیع کرنے یعنی :بیع نامہ کی تحریر سےانکار کردیتا توشرعا یہ دو صدروپئے زید کوواپس ہوتے اوربکر اس کامستحق نہ ہوت اورنہ اس کےلئے لیناجائز ہوتاکیوں کہ زید کےاس دوصدروپئے سےبکر کاانتفاع اکل مال بالباطل ہوتا ۔

الشرح الکبیر11/253میں ہے: فأما إن دفع إليه قبل البيع درهما وقال لاتبع هذه السلعة لغيري وإن لم اشترها منك فهذا الدرهم لك ثم اشتراها منه بعد ذلك بعقد مبتدأ وحسب الدرهم من الثمن صح لأن البيع خلا عن الشرط المفسد، ويحتمل أن الشراء الذي اشترى لعمر كان على هذا الوجه فيحمل عليه جمعاً بين فعله وبين الخبر وموافقة القياس والأئمة القائلين بفساد بيع العربون.

وان لم يشتر السلعة في هذه الصورة لم يستحق البائع الدرهم لانه يأخذه بغير عوض ولصاحبه الرجوع فيه ولا يصح جعله عوضا من انتظاره وتأخر بيعه من أجله لأنه لو كان عوضاً عن ذلك لما جاز جعله من الثمن في حال الشراء ولأن الانتظار بالبيع لا تجوز المعاوضة عنه ولو جازت لوجب أن يكون معلوم المقدار كما في الإجارة

پس جس طرح زید کےمکان کی خرید سےانکار کردینےکی صورت میں بکر اس کی پیشکی دئیے ہوئےدوصدروپئے کامستحق نہیں ہوگااورنہ بکر کےلئےلیناجائز ہوگابسبب اکل مال بالباطل میں داخل ہونے کےاسی معاہدہ کےخلاف زید کےبجائےدوسرے کےہاتھ فروخت کردینےکی صورت میں زید صرف اپنی پیشگی دیئےہوئے کوواپس لینےکامستحق ہوگا۔اوراس کےعلاوہ بکر سےکچھ اورقم بطورتاوان وصول کرنےشرعا مستحق نہیں تھا۔مکتوب

(3)بنک کےمقرر نرخ اوربھاؤ کےخلاف قرض لینے والے اوراس کےقرض دینے آپس کی رضامندی سےجوبھاؤبھی طے کرلیں اس میں میرے نزدیک کوئی قباحت شرعی معلوم نہیں ہوتی۔مذکورہ لین دین اورتبادلہ کی مبینہ صورت کےعدم جوازیااس کےجواز میں شک وشبہ کرنےکی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جبکہ شرعا پبلک اپنے باہمی لین دین میں بنک کےنرخ اوبھاؤ کی تابع نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 371

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ