سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) قرض کے پیسوں کے کاروبار میں منافع میں قرض دینے والے کا حصہ

  • 17504
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1047

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید عمرو سےکچھ روپے اس شرط پرقرض لیتا ہےکہ اس روپے سےجومنافع حاصل ہوگا ، اس میں سے ایک حصہ تم کو،بھی دیا کروں گا، عمرواس کاروبار میں کچھ حصہ نہیں لیتا ؟ صرف اس نے روپیہ قرض دیا ہے۔اس صورت میں جوروپیہ عمروکوبصورت منافع زید سےحاصل ہوگا، آیایہ روپیہ ’’سود ،، کےحکم میں ہےیا نہیں ؟ کیوں کہ روپیہ اسی شرط پردیا ہے، اگر زید نےروپیہ بلا شرط لیاہے اورپھر خود بخود بخوشی منافع میں سے کچھ روپیہ عمرو کودینا ہے، کیا یہ بھی ’’ سود،، میں داخل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کسی نے دوسرے شخص کواس شرط یہ یا وعدہ پرروپیہ دیا ہےکہ اس روپیہ میں ،کاروبار سےحاصل شدہ منافع میں سے کچھ حصہ( معین یاغیرمعین ) مجھ کودینا ، یاشرط اور وعدہ تونہیں لیا ہے، لیکن اس مقام میں یہ دستور اورعرف وعادت ہےکہ قرض لینے والا قرض دینے والے کومنافع میں سے کچھ رقم دیا کرتا ہے، تو یہ دونوں صورتیں شرعاً ناجائز اوربالاتفاق ممنوع ہیں ۔ کیوں کہ یہ ’’ ربا ،، اور’’سود،، ہے، منفعت مشروط یاموعود یامروجہ ومعتادہ عوض سےخالی ہے،اوریہی معنی ربا محرمہ کا ہے۔

قال فى التفسير المظهرى تحت قوله تعالى: (وحرما الربا) : ’’ والمغنى  أن الله تعالى حرم الزيادة فى القرض على المقدار المرفوع، والزيادة فى البيع لأحد البدلين على الآخرة ،،

’’ الربا : هو فضل مال خال عن عوض شرط لأحدالمتعاقدين فى معاوضة مابمال،،(ملتقى الأبحر  ص : 99 ) .

امام مالك فرماتے ہیں : ’’ قَالَ مَالِكٌ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يُقْبِضَ مَنْ أُسْلِفَ (1) شَيْئاً مِنَ الذَّهَبِ، أَوِ الْوَرِقِ، أَوِ الطَّعَامِ، أَوِ الْحَيَوَانِ، مِمَّنْ أَسْلَفَهُ ذلِكَ، أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفَهُ. إِذَا لَمْ يَكُنْ ذلِكَ عَلَى شَرْطٍ (2) أَوْ وَأْيٍ، أَوْ عَادَةٍ (3). فَإِنْ كَانَ ذلِكَ عَلَى شَرْطٍ، أَوْ وَأْيٍ، أَوْ عَادَةٍ. فَذلِكَ مَكْرُوهٌ، وَلاَ خَيْرَ فِيهِ

قَالَ: وَذلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، قَضَى جَمَلاً رَبَاعِياً خِيَاراً. مَكَانَ بَكْرٍ اسْتَسْلَفَهُ.

وَأَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، اسْتَسْلَفَ دَرَاهِمَ. فَقَضَى خَيْراً مِنْهَا. فَإِنْ كَانَ ذلِكَ عَلَى طِيبِ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْتَسْلِفِ. وَلَمْ يَكُنْ ذلِكَ عَلَى شَرْطٍ، وَلاَ وَأْيٍ، وَلاَ عَادَةٍ. كَانَ ذلِكَ حَلاَلاً، لاَ بَأْسَ بِهِ.

قال الهمام :قالوا:انه انمايحل ذلك عند عدم الشرط اذالم يكن فيه عرف ظاهر كان يعرف ان ذلك يفعل كذلك فلا(محلى شرح موطا للشسيخ سلام الله)

روى مالك عن نافع انه سمع عبدالله بن عمر يقول : من اسلف سلفا يشترط الاقضاءة(موطا برواية محمد(828)ص:293)

وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى عَدَمِ حِلِّ الْقَرْضِ الَّذِي يَجُرُّ إلَى الْمُقْرِضِ نَفْعًا مَا أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ مَوْقُوفًا بِلَفْظِ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا» وَرَوَاهُ فِي السُّنَنِ الْكُبْرَى، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأُبَيُّ بْنِ كَعْبٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا عَلَيْهِمْ وَرَوَاهُ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي أُسَامَةَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - بِلَفْظِ: «إنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَهَى عَنْ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً» وَفِي رِوَايَةٍ: «كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ رِبًا» وَفِي إسْنَادِهِ سُوَارُ بْنُ مُصْعَبٍ وَهُوَ مَتْرُوكٌ(نيل الاوطار5/351)

قال محمد فى كتاب الصرف:ان ابا حنيفة كان يكره كل قرض جرمنفعة قال الكرخى:هذاكانت المنفعة مشروطه فى العقد بان اقرض غلة عليه صحاحااوما اشبه ذلك فان لم تكن المنفعة مشروطة فى العقد فاعطاه المستقرض اجود مماعليه فلاباس به(عالمكيرى148/3)

ان تمام عبارات فقہ وحدیث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرض دینے والے کومدیون کی طرف سےاصل دین کےعلاوہ جوکچھ بھی ازروئے وعدہ وشرط یاعدت وعرف وہ ربا سود ہونے کی وجہ سے حرام وممنوع ہےہاں اگر مدیون بغیرشرط اوروعدہ کےاوربصورت عدم عرف وعادت کےقرض خواہ کواپنی خوشی سےاصل دین کےعلاوہ کچھ حصہ منافع کادے دے بلاشک وشبہ اس زائد رقم کاقبول کرناجائز ہے ۔لحدیث ابی ہریرہ وجابر وابی رافع والعرباض واخرج حدیث وجابر الشیخان فی صحیحہا)

قال الشوكانى :وفيه اى حديث ابى هريرة جوازردماهوافضل من المثل المفترض اذالم تقع شرطية ذلك فى العقد وبه الجمهور قال

وَأَمَّا الزِّيَادَةُ عَلَى مِقْدَارِ الدَّيْنِ عِنْدَ الْقَضَاءِ بِغَيْرِ شَرْطٍ وَلَا إضْمَارٍ فَالظَّاهِرُ الْجَوَازُ مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الزِّيَادَةِ فِي الصِّفَةِ وَالْمِقْدَارِ وَالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ(نيل الاوطار350/5)

پس صورت مسؤلہ میں زید کی طرف سے عمرکوبموجب شرط منافع میں سے جس قدر حصہ ملے گاوہ بلاشک وشبہ ربا سود ہے۔

وهكذا المنافع التى يقسمها يعطيها المشركين اصحاب لبنوك  الاهلية اوالوطنية القومية اولاجنبية. البتہ اگر زید عمروکوبغیر شرط وعدہ بصورت انتقاء عرف وعادت ورواج اپنی خوشی سےاصل رقم دین سے زائد کچھ دیدے توعمروکےلئے اس کاقبول کرنا جائز ہےکماتقدم اسی طرح عمرووزید کوبطریق مضاربت روپیہ دیدے اورمنافع میں سےایک معین حصہ لے مثل ثلث یاربع نصف توشرعا جائز ہے۔ مضاربت میں ایک کاروپیہ ہوتاہےاوردوسرے کی محنت وعمل ۔اوردونوں نفع میں شریک رہتے ہیں

المضاربة:عقد على الشركة بمال من احد الجانين ومراده الشركة فى الربح وه يستحق بالمال وه يسمى بالمال من احد من الجانين والعمل من جانب الاخر ولامضاربة بدونها الاترى ان الربح لوشرط كله لرب المال كان بضاعة ولوشرطا جميعة للمضاربة كان قرضا كذا فى الهداية وغيرها والله تعالى اعلم

محدث دہلی

ج:روپئے پیسے کی حفاظت کابنک کےعلاوہ اورکوئی دوسرا محفوظ ذریعہ نہ ہوتوبنک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولنا جائز ہےاوراس صورت میں بنک سےجس قدر سود کی رقم ملے اسے بنک میں چھورا نہ جائے بلکہ نکال لیاجائے لیکن اس کواپنی یااپنے کسی عزیز بلکہ کسی بھی مسلمان کی ضرورت جائز خاصہ یامشترکہ میں صرف نہ کیاجائے اس سے بیت الخلاءیاپلیایاسڑک اورنہر وغیرہ بھی بنوائی جائے بلکہ کسی غریب غیرمسلم پر صرف کردی جائے یاکسی ایسے کالج اوراسکول میں دیدے جائے جس میں پڑھنےوالے صرف غیرمسلم ہوں یاایسے  سرکاری ٹیکسوں میں خرچ کردی جائے جوشرعا محض جبروظلم اورناحق ہیں مثلا بکر ٹیکس(سیلس ٹیکس)یا انکم ٹیکس یاہاؤس ٹیکس وغیرہ کسی بھی سودی رقم کاکسی مسلمان کی ضروریات میں خرچ کرناخواہ وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہوں جائز نہیں ہے۔یامال خبیث ہر مسلمان کےحق میں بہرحال خبیث ہی ہے۔ہذا ماظہر لی ولعلم عنداللہ تعالی۔

٭آپ کےمسئلہ مستفسرہ پراس سےپہلے کئی مرتبہ لوگوں کےاستفسار پراوربغیر استفسار کےبھی غورفکر اورچھان بین کرنےکی ضرورت پیش آئی اورحسب مقدرت غوروتمحیص سےکام لیاگیا مگر افسوس ہےکہ مجھے اب تک بینک سےیاکسی فرد سےیاکسی بھی سوسائٹی سے سودی قرض لے کر کاروبار کرنےیامکان بنانے اورسود دینےکےجواز کےبارے میں اطمینان اورشرح صدر نہیں ہوسکا جس  طرح سود لینے پرممانعت آئی ہےاس طرح سودینےپربھی ممانعت آئی ہےاورسود لینےاوردینے والے اوردینے والے دونوں نفس گناہ میں یکساں قرار دیا گیا ہے۔ارشاد ہے: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال:هم سواء اورارشاد فرمايا:گیا: الاخذ والمعطى فيه سواء(مسلم)

سودی قرض لینے کےلئے جومجبوری حکومت کےقانون کی بناپربیان کی گئی ہےوہ شرعا اضطرارومجبوری کےحکم میں نہیں ہےکوئی شخص انکم ٹیکس کی زد میں آنے والاکاروبار کرنے پرشرعا مجبور نہیں ہےاورنہ وہ اس کامکلف ہےاوراگر کوئی دس ہزار یااس سےاوپرکی آمدنی والاکاربارو کرناچاہتاہےتواسے دیانتداری کےساتھ اپناحساب وکتاب رکھ کرعائدہ شدہ انکم ٹیکس اداکرناچاہئے ۔البتہ اگر مجوزہ انکم ٹیکس اتنازیادہ  ہوکہ وہ کھلا ہواظلم اورصریح زیادتی ہوتواس سےبچاؤ کےلئے اوراپنے کاروبار کوجاری اورمحفوظ رکھنے کےلئے رشوت سےکام لیا جاسکتا ہے۔اوراپنے واجبی حق کوحاصل کرنےاورمحفوظ رکھنے کے لئےاورنیز ظلم سےبچنے کےلئےکوئی جائز شکل نہ ہوبجرز رشوت دینےتوفقہا نےخاص ایسی صورت میں رشوت دینے کوجائز بتایا ہے۔ایسی صورت میں گنہگار صرف مرتشی ہوگا۔

امید ہےکہ آپ نےاس سلسلہ میں دوسرے علماء سےبھی استفسار کیا ہوگا امید ہےکہ آپ ان کے جواب سےمطلع کریں گے۔مکتوب

٭آپ کےاستفساربابت لون پربینک سےروپیہ لینے کاجواب مختصر الکھا جارہاہے:

جہاں تک میں تحقیق کی ہےیہی معلوم ہواکہ بینکوں سوسائٹیوں اورڈاک خانوں سےبطور قرض روپیہ لینے والوں کوکسی نہ کسی مرحلہ میں سود ضرور دیناپڑتا ہےایسی صورت میں لون پرروپیہ اٹھاناشرعا ٹھیک نہیں ہے۔جس طرح بینک یاڈاک خانہ میں اپنےجمع کئےہوئے روپئے کاسود لے کراس سےفائدہ اٹھانا حرام ہے ۔اس طرح قرض لئےہوئےرقم پرسود دینا بھی حرام ہےحکومت وقت غریبوں کوقرض دے کراوپراٹھانےکی جواسکیم بناتی اوررائج کرتی ہےوہ سودی لین دین سےخالی نہیں ہوتی اس لئے ایسی اسکیم سے مسلمان کےلئےفائدہ اٹھانااٹھیک نہیں ہے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 365

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ