سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176) عرس یا میلوں میں تجارت کرنا

  • 17502
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 742

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل ہنود کےمیلوں یامسلمانوں کےعرس میں بعض تجارت اپناسامان لےجانا یاکوئی چیز خریدنےکےلئے جانا جائز یانہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل ہنود کےمیلوں یامسلمانوں کےعرس میں تجارت یاکسی اورغرض سےشریک ہونادرست نہیں بلکہ عقلا اورنقلا ہرطرح قبیح ہے۔ہندؤں کےتمام میلے شرکیہ اورفسقیہ ہوتے ہیں پھر وہ غیرمسلموں کےتہوار ہیں اورعرس خود ایک بدعت ہےپھر اس میں شریک ہونے والے عمومافساق وفجار اورمبتدعنی ہوتے ہیں اورااس اجتماع میں شرک اورفسق فجور کابازار گرم ہوجاتا ہے۔ظاہر ہےکہ ایسے خلاف شرع اورناپاک بیہودہ مجمع میں خریدوفروخت وغیرہ کی غرض سےبھی شریک ہونا کیوں کرمباح اورجائز ہوسکتا ہے۔

مومن کی شان قرآن کریم میں بیان فرمائی گئی ہے :والذین لایشہدون الزرو(الفرقان76)اورارشاد ہے﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ (68)اورارشاد ہے  ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (2)اورآں حضرتﷺ فرماتے ہیں :من کثر سواد فهومنهم

خرید وفروخت کی نیت سےشریک ہونےوالوں کامقصد اگرچہ مراسم شرکیہ وفسقیہ میں شریک ہونانہیں ہوتااورتکثیر مجمع مدنظر ہوتا ہےلیکن بلاارادہ اس خلاف شرع مجمع کی ورنق بڑھانےکاذریعہ بن جاتا ہے میلے اورعرس کوبازار پرقیاس کرناکھلی ہوئی غلطی ہے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 364

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ