السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتاہےکہ میں مقروض اوربے روزگار ہوں ۔اس زمانہ میں لاٹری کاسلسلہ جاری ہے جس کاٹکٹ اکثرلوگ خرید اکرتے ہیں اوران کانمبر اول دوم سوم آنےپرانہیں تجویز شدہ رقم بھی ملتی ہےمگر میں اس طرح رقم لینا مناسب نہیں سمجھتا ہوں اوربوجہ مقروض وبے روزگار ہونےکےاس نیت سےٹکٹ لاٹری خریدنا چاہتاہوں کہ اول دوم سوم وغیرہ نمبر کےانعامات کی جورقم ہووہ میں بطور قرض حسن کےکام میں لاؤں گااوراس رقم سےبیوپار اورکوئی سلسلہ جاری کرکےاصلی رقم واپس رفتہ رفتہ اداکرتا جاؤں گاجس جگہ سےمجھے وصول ہوگی ایسا کرنےسےمیرے ذمہ سود کابارنہیں ہوگااس کےسوا میری کوئی دوسری نیت نہیں ہے۔آیا اس طریق ٹکٹ لاٹری خریدنا بطورقرض حسن رقم لینے کےشریعت سےدرست ہےیا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لاٹری کی جوصورت سوال میں درج ہےاورجوفی زماننا مروج ہےوہ سراسراقمار(جوا)اورربوا(سود) ہےاورقماروربوا شرعا حرام گناہ کبیرہ ہیں﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (سورۃ المائدہ:90) ‘‘بنابریں لاٹری کاٹکٹ خریدناحرام ہےاورلاٹری والوں کےپاس جمع ہوکر جومجوزہ رقم بعض افراد کوملتی ہےغیرطیب وناپاک ہے اوراس کالینا حرام ہے۔لاٹری والوں کےپاس اس طرح جورقم جمع ہوتی ہے شرعا نہ تولاٹری والے اس کےمالک ہوتے ہیں اورنہ وہ انعام کےمستحقین یعنی:نام نکلنے والوں کی ملکیت میں داخل ہوتی ہےبلکہ عندالشرع ہر ٹکٹ خریدنے ولا اپنےاپنےحصہ رقم کاحسب سابق مالک رہتا ہے اورٹکٹ خریدنے سےاس کاروپیہ اس کی ملکیت سےخارج نہیں ہوتاکیوں کہ معاملہ یہ طریق(لاٹری) شرعا باطل اورحرام ہونے کی وجہ سےلاشئی اورکالعدم ہے۔
ٹکٹ خرید کرکےلاٹری میں حصہ لینےوالا اپنی مرسلہ بطورقرض کےکارکنان لاٹری کےیہاں نہیں بھیجتا اورنہ یہ کارکنان لاٹری اس کوقرض وامانت سمجھتےہیں اورنام نکلنے والوں کوتجویز شدہ رقم بطور قرض نہیں بلکہ ان کی ملکیت سمجھ کران کےپاس بھیجی جاتی ہے اوراگر انعام پانے والاانعام میں حاصل شدہ زائدرقم فوریاکچھ دن کےبعد واپس بھی کردے توکارکنان لاٹری اس رقم کاکچھ حصہ بھی اس کےاصل مالک یعنی:ٹکٹ خریدنےوالے کوجس کی ملکیت سےیہ رقم شرعا خارج نہیں ہوئی تھی واپس نہیں کریں گے۔بنابریں اس رقم کوقرض حسنہ سمجھ لینا ایک فریب اورجعل ہے۔
پس جب لاٹری کاٹکٹ خریدنا شرعاحرام ہےاورٹکٹ خریدنے والے کایہ رویہ اس کی ملکیت میں حسب سابق باقی رہتا ہے اوراس میں کارکنان لاٹری کوملک غیر ہونےکی وجہ سےتصرف کرنے کاحق نہیں ہےاورجب مستحق انعام کامجوزہ رقم خلاف شرع اس کی ملکیت سمجھ کربھیجی جاتی ہےاوراگر انعام پانےوالازائدرقم واپس بھی کردے توکارکنان لاٹری اس کاکچھ حصہ بھی اس اصل مالک کووپس نہیں کریں گےتوکسی انعام پانے والا زائد رقم کوبھی واپس کردے توکارکنان لاٹری اس کاکچھ حصہ بھی اس کےاصل مالک کوواپس نہیں کریں گےتوکسی مسلمان کاقرض کےطور پر بھی رقم حاصل کرنےکی نیت سے ٹکٹ خریدنا اورانعام میں حاصل شدہ رقم کوجس کاحصول غیرقطعی بلکہ موہومی اورمتردوبین الوجود العدم ہے۔قرض حسنہ سمجھ کرکام اورتصرف میں لانا یعنی :اس تجارت یااورکوئی روزگاکرناقطعا ناجائز ہےاورایسے روپے سےحاصل کردہ مال ناپاک اورغیرحلال ہےکیوں کہ جب حرام ہےتواس سے حاصل شدہ چیزبھی حرام ہوگی ۔شریعت نےمقروض یابے روزگار کوقمار وربوا میں حصہ لے کر کسی نیت سےبھی رقم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔معاش کےدوسرے جائز وسائل موجود ہیں ان کی طرف رجوع کیجئے ۔نیت بخیر ہےتوبرکت ہوگی اورنفع ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب