سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(168) سود کی رقم سے بغیر ثواب کی نیت دوسرے کی مدد کرنا

  • 17494
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 831

سوال

(168) سود کی رقم سے بغیر ثواب کی نیت دوسرے کی مدد کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیمہ داراگرسود کی رقم بغیرنیت ثواب کےکسی دوسرے شخص کوامداد کےطور پردیتا ہےتوکیا اس صورت میں انشورنس کامعاملہ جائز ہوگا؟

اگر انشورنس کےجواز کی گنجائش نہیں ہے توکیا مصالح وحاجات مذکورہ کوسامنے رکھ کراس کاکوئی بدل ہوسکتا ہےجس میں مصالح مذکور موجود ہوں اوراس پرعمل کرنےسےارتکاب معصیت لازم نہ آئے اگر ہوسکتا ہےتوکیا؟

انشورنس کی مروجہ شکل میں کیا کوئی ایسی ترمیم کی جاسکتی ہےجواسے معصیت کےدائرے سےخارج کردے اورمصالح مذکورہ کوفوت نہ کرے اگر ہوسکتی ہےتوکیا ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیمہ دار جس نےبحالت اضطرار بیمہ پالیسی خریدی ہےسود کی رقم بغیرنیت ثواب کے بھی کسی مسلم مضطر کودیتا ہےتووہ ایک مسلمان کومال حرام کھلانے کےگناہ کاضرور مرتکت ہوگا۔

غیراسلامی حکومت میں مروجہ بیمہ کےبدل کوتلاش وتعین اوراس کاخاکہ وڈھانچہ تیار کرنا اتناآسان نہیں ہے جتنا یہ سوال آسان ہےاس کے لئے ضرورت ہےکہ ماہرین کی مجلس جواسلامی اصولوں کواچھی طرجانتی ہواوربیمہ کے معاملات کوبھی خوب سمجھتی ہواس معاملہ کاجائز لے اورانشورنس کی مروجہ شکل میں ایسی ترمیم واصلاح کرے جواس کومعصیت کےدائرہ سےخارج کردے اورمصالح مذکورہ کوفی الجملہ حاوی ہویاایسا نعم البدل تلاش کرے جس میں مصالح مذکورہ ایک حد تک موجود ہوں اورجومفاسد سےیکسر پاک وخالی ہواوراس میں ارتکاب ومعصیت کی کوئی صورت نہ ہو۔

بیمہ کی موجودہ مروجہ شکل میں تین قباحتیں اورشرعی مفسد سےسب سے اہم ہیں اگر وہ ختم کردئیے حائیں توبعض نظائر کی روشنی میں جن کاتذکرہ نمبر:3کےتحت گذرچکا ہےزندگی اورذمہ داریوں کےبیمہ کےجواز کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

پہلامفسدہ اورقباحت یہ ہےکہ:بیمہ کرانے کےبعد اگر ایک آدھ قسط بھی اداکرنے کےبعد بیمہ شدہ جائیدار تلف ہوجائےتوکمپنی بیمہ کی پوری رقم اوراس کےساتھ کچھ مزید رقم زیادہ شرح فیصد کےحساب سےبیمہ کرانےولے کودیتی ہےاورجمع کی ہوئی اقساط سےزیادہ جس قدر بھی دیاجائے یہ بلاشبہ شرعا اصطلاحی ربوا ہے۔

دوسرا مفسدہ یہ ہےکہ:کمپنی بیمہ داروں سےوصول کی ہوئی رقم کوسود کاروبار میں لگاتی ہےاوردوسرے کواعلی شرح سود رقم قرض دیتی ہےیہ سودی کاروبار اورسود قرض دینا شرعاحرام ہے۔

تیسرامفسدہ یہ ہےکہ:کمپنی بہرحال بیمہ دار کواصل رقم سےکچھ زائد بطور سود کےدینا شرط کرتی ہےاورقانونا اس کی پابند ہوتی ہےیہ شرط اورپابندی اوراس پرعمل ختم ہونا چاہئے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 357

محدث فتویٰ

تبصرے