السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگریہ کاروبار حکومت کےہاتھ میں ہوتو کیا اس بنیاد پرکہ خزانہ حکومت میں رعیت کےہرفرد کاحق ہوتا ہے زیربحث معاملہ میں سود کی رقم عطیہ حکومت قرار پاکر ربواکےحدود سےخارج ہوسکتی ہےیانہیں؟اورکیا اس صورت میں یہ معاملہ جائز ہوسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بنیاد پرکہ خزانہ حکومت میں رعیت کےہرفرد کاحق ہوتا ہےزیر بحث معاملہ میں سود کی رقم کوحکومت کاعطیہ قرار دینااوراس طرح سود کی رقم کوربوا شرعی کےحدود سےخارج کرنا اوراخارج سمجھنا غلط ہے۔
غیرمسلم حکومت کےخزانہ کواسلامی حکومت کےخزانہ(بیت المال) پرقیاس کرنا انتہائی غلط بات ہے۔اسلامی حکومت کےخزانہ کی آمدنی کےذرائع اورمدات معلوم ومتعین ہیں۔جوکتب فقہ میں بالتفصیل مذکورہیں۔ان میں کوئی بھی مد اورذریعہ آمدنی ایسا نہیں ہے جوشرعامشکوک ومشتبہ ہوچہ جائیکہ حرام اورناجائز ہوپھر ہر ایک مد کامصرف متعین ہےسربراہ حکومت اوراس کےعمال کویہ حق نہیں ہوتا كہ کسی غلط ذریعہ آمدنی سےبیت المال کوبڑھانےیاغلط اورناجائز جگہ خرچ کرے۔اورغیرمسلم حکومت کامعاملہ ایسا نہیں ہے یہ جانتے ہوئے بیمہ کمپنی بیمہ دار کواس کی اصل رقم سےجس قدرزائد رقم دے رہی ہےبیمہ دار کوعام سرکاری خزانہ سےنہیں مل رہی ہے بلکہ خاص انشورنس کےکاربار کی آمدنی سےمل رہی ہے اوربطور سود کےمل رہی ہے جوشرعامال خبیث ہے وہ حکومت کاعطیہ کیوں کرقرار باسکتی ہے!؟ویدہ ودانستہ اس مال خبیث کوحکومت کاعطیہ قراردینا اوراس طرح اس کوحدوربوسےخارج سمجھ کراپنے لئے حلال سمجھ لینا نہایت غلط بات ہےحرام چیز کوحلال کرنےکایہ بھونڈا مکروہ اورمہمل حیلہ ہوگا۔اعاذنا اللہ من ذلک.
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب