سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) مسلمان دارالحرب کا باشندہ ہو تو ؟

  • 17490
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 948

سوال

(164) مسلمان دارالحرب کا باشندہ ہو تو ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی مسلمان کسی داراالحرب کاباشندہ(مستامن نہیں) اورکمپنی حریبوں ہی کی ہوتوکیا اس صورت میں مسلمانوں کےلئے جائز ہوگا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی مسلمان دارلحرب کاباشندہ ہو اورکمپنی حربیوں ہی کی ہوتوبھی یہ معاملہ مسلمان کےلئےناجائز ہی رہے گاایک مسلمان کےلئے خواہ وہ دارالاسلام کاباشندہ ہواوردارالحرب میں مستامن من ومعاہد کی حیثیت سےہویا دارالحرب ہی کاباشندہ ہو بہرحال اس کاجس طردارالاسلام میں کسی مسلمان سےسودی معاملہ کرنا اورسود لینا اوردینا جائز نہیں ہےاس طرح حربی سےبھی خواہ وہ دارالحرب میں ہویا داراسلام میں مستامن  کی حیثیت سےہو بہر صورت اس کاحربی سےربوی معاملہ کرنا اورسود لینا حرام ہے کتاب اللہ اوروسنت اس بارے میں داراالحرب اوردارالاسلام یاحربی اورغیرحربی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہےبلکہ ربوا کومطلقا حرام کردیا ہےاورایک مسلمان کےلئےربوی معاملہ کوخواہ وہ کہیں بھی اور کسی سے بھی یہ معاملہ کرناچاہے بہرحال حرام قراددیا ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی نےحاشیہ درمختار(249/3)میں سوکر دیا بیمہ کےمعاملہ میں جوتفصیل اورفرق کیا ہےکہ اگر سوکرہ کامعاملہ حربی مستامن سےدرالاسلام میں ناجائز ہے پس ناگہانی آفت سےبیمہ شدہ مال تلف ہوجانےکی صورت میں اس مستامن حربی سےبیمہ دار مسلمان کےلئے اپنے تلف شدہ مال کامعاوضہ جائز نہیں ہوگا۔لانه لايحل لمسلم ان يتعاقد فى دار الاسلام مع المستامن شئ لايلزمه شرعا لانه فيه التزام مالزم(دارالاسلام كاباشنده ہویا دالحرب کا)اگر وہ سوکرہ (انشورنس)کامعاملہ حربی سےدالحرب میں کرے تویہ معاملہ جائز اوردست ہوگااوراس صورت میں اس مسلمان بیمہ دار کے لئے اس حربی سےاپنےتلف شدہ مال کامعاوضہ لینا جائز ہوگا۔لانه اخذمال حربى برضاه دون غدر ولاخيانة وليس بعقد فاسد معقود فى دارالاسلام حتى يكون خاضعا لاحكامنا

اس فرق وتفصیل پرکتاب اللہ وسنت سےکوئی دلیل نہیں ہےاس فرق کی اساس وبنیاد صرف یہ خیال ہے کہ خاص دارالحرب میں رہنے الے حربیوں کی اموال غیرمعصوم ہیں تووہاں سود کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس بیان کردہ وجہ فرق سے ظاہر ہوتا ہےکہ حقیقت ربوا کےتحقق کےلئےمال کامعصوم ہونا شرط ہےاورجب یہ شرط حربی اموال میں متحقق وموجود نہیں ہے تووہاں حقیقت ربوا بھی متحقق نہیں ہوگی لیکن یہ دعوی اورفرق کی یہ توجیہ وتعلیل کسی نص شرعی سےثابت نہیں ہےقرآن کریم اوراحادیث نبویہ نےربوا کےتحقق کےلئےاموال کےمعصوم ہونےکی شرط نہیں لگائی بلکہ اموال غیرمعصومہ میں جوربوی کاروبار ہوتا ہےاورجسے خالص حربی کیا کرتے تھے اس کوبھی ربوا کہااوراس ربواکوبھی حرام قرار دیا ہےآیت: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾سورۃ البقرہ:275

کویکساں سمجھ کرربوی کاروبار اورسودی بن دین کیاکرتےتھے اس آیت نےغیرمسلموں کےربوی معاملہ کوجووہ اموال غیرمعصومہ میں کرتے تھے ربوا کہاہے اوراس کاکاروبار کرنےوالوں کوعذاب آخرت کی دھمکی دی ہے۔معلوم ہواکہ ربوالفضل جس کوقرآن نےحرا م قرادیا ہےجس طرح مال معصوم میں حرام ہے ٹھیک اسی طرح مال غیرمعصوم میں بھی حرام ہےاورمشہور حدیث :’’كل ربا كان فى الجاهلية فهو موضوع وأول رباموضوع ربا العباس بن عبدالمطلب سے تویہ صراحۃ ثابت ہوتا ہے۔

ربا کےتحقق کےلئے اموال معصوم ہونےکی شرط غلط ہےاس لئے کہ جاہلیت کےربوی معالے میں جوغیرمسلمون نےاپنے خالص غیرمعصوم اموال میں کئے تھے جن میں جضرت عباس﷜کاربوی معاملہ بھی تھا۔ان سب کوآں حضرتﷺنےربوا قراردے دیا ہے۔معلوم ہواکہ ربوا کےپائے جانے کےلئے مال کےمعصوم ہونے کی شرط وقید بےاصل وبے بنیاد ہے۔اس سےیہ بات واضح ہوگئی کہ مسلم معاہد دارالحرب کاباشندہ بھی اگردارالحرب میں حربی سےاس کی رضا مندی سے سہی کوئی بھی ربوی معاملہ کرے توہ وحرام کام کامرتکب ہوگااوراگر اس حربی سے سود کی رقم لے لے توسود خوار ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 353

محدث فتویٰ

تبصرے