سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) بیمہ معین وقت سے پہلے تلف ہوجائے تو؟

  • 17486
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 758

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

معاملہ کی یہ شرط کہ اگر بیمہ شخص یاشئے وقت معین سےپہلے تلف ہوجائےتواتنی رقم ملے گی اوراس کےبعد تلف ہوئی تواتنی جبکہ ہونےکی وقت کاتعین غیرممکن ہےاس معاملہ کوقمار کےحدود میں نہیں داخل کردیتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیمہ کامعاملہ اگرغور سےکام لیاجائے توایک طرح قمار (یعنی :جوا)ہے اوراگربالفرض یہ معاملہ حقیقتا قمار نہ ہوتوقمار کےمشابہ ضرور ہےاب قمار کی روح اوراس کےبڑا عنصر مخاطرہ الارتكاب مافيه خطربالنفس أوالمال اوردوران بين الغنم والغرم)يعنی فائدہ اورخسارہ وتاوان دونوں کایکساں احتمال ہےاوریہ چیز بیمہ میں صاف طور سے پائی جاتی ہےبیمہ دار معاملہ کرلینے کےبعد پہلی قسط اداکرنےسےپہلے مرجائےیا اس کی بیمہ شدہ جائداد تلف ہوجائے تواس کویا اس کےقانونی ورثاء کوبیمہ کی پوری مقرر رقم مع شئے زائد کےملتی ہےاس طرح اس کوسراسرفائدہ ہی رہتا ہے اورکمپنی کاپورا نقصان وخسارہ اوراگر بیمہ دارکئی قسطیں ادکرنے کےبعد کسی وجہ سے بقیہ اقساط کی ادائے گی بند کرے تواس کی ادا کی ہوئی کل رقم سوختہ ہوجاتی ہےاس صورت میں بیمہ دار کاسراسر نقصان اورکمپنی کاپورا فائدہ ہوتا ہےدونوں صورتوں میں مخاطرہ اوردوران بین الغنم والغرم کاتحقق ظاہر ہےاوراکل مال بالباطل بھی موجود ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ کمپنی کومعمولی تاوان برداشت کرناہوتا ہے اورکبھی وہ ایک بیمہ دار کےذریعہ یعنی :اس کی جمع کردہ رقم سےہزار روپے کمالیتی ہے اس طرح بیمہ دار اوربیمہ کمپنی کوجوکچھ لینا اوردینا ہوتا ہے ان کےدرمیان کوئی تناسب نہیں  ہوتا اوریہ سب کچھ قمار میں بھی ہوتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 351

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ