سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(156) انشورنس کرانا کیسا ہے؟

  • 17482
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1065

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

انشورنس کرانا کیسا ہے؟جبکہ اختتام میعاد پرمقرررقم سےجوکچھ زائد ملتا ہےوہ عام سود کےطور پرمقررنہیں جوڑا جاتابلکہ بیمہ کی رقم تجارت میں لگا کرسالانہ نفع اورنقصان کالحاظ کرکے فیصدی پررکھا جاتا ہے۔کسی سال کچھ رقم منافع میں آتی ہےدوسرےسال کچھ!اورعلماء کرام اس بارے میں مختلف الرای ہیں۔

حضرت مولاناامرتسری نےبھی استفتاء پرجواز کافتوی دیاتھا لیکن کوئی دلیل نہیں فرمائی تھی۔اسکول کےاکثر اسٹاف انشورنس شدہ ہیں میں تذبذب میں ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے نزدیک ان لوگوں کاقول صحیح ہےجوزندگی کابیمہ کرانےکوناجائز کہتے  اوروہ لوگ غلطی پرہیں جنہوں نےاس کےجواز کافتوی دیاہے۔

انسانون یاجانور کی زندگی یاجائداد کےبیمہ کرنےکی حقیقت پرغور کیاجائےتوسوال کاجواب اس کےسواکچھ اورنہیں ہوتاکہ انشورنس کرانےکاجائز بتانا سود یاقمار کوحلال کرنا ہے۔

بیمہ کمپنیوں کااصول ہےکہ زندگی کابیمہ کرانےولایابیمہ کرایا ہواجانور بیمہ کی معینہ مدت سےقبل مرجائےیابیمہ کرائے ہوئے جائداد کسی ناگہانی آفت سےمقررمدت کےاندر ضائع ہوجاتے توبیمہ کی پوری مقرر رقم اس کے ورثا کویاجائداداورجانور کےمالک کومل جاتی ہےاوراگربیمہ کرانےوالا یاجانوراورجائدادمقرر مدت تک زندہ اورمحفوظ رہے توکل جمع کردہ رقم مع سود کےبیمہ کرانےوالے  کویاجانور اورجائداد کےمالک کوملتی ہے اوراگر کچھ رقم جمع کرنے کےبعدبیمہ کرانےوالامسلسل دوسال تک مقرر قسطیں ادا کرنےسےقصداانکار کردے یامجیور انہ کرسکے تویہ بیمہ کمپنی اداشدہ قسطوں کوضبط کرلیتی ہے۔

سوال یہ ہےکہ مقرر مدت کےاندر مرجانےیابیمہ کردہ چیز کےتلف ہوجانےکی صورت میں اوراسی طرح مقررمدت تک زندہ اورمحفوظ رہنےکی صورت میں بیمہ کمپنیاں بیمہ کرانے والوں کویا ان کےورثہ کوان کی جمع کردہ رقم سےزائد جوکچھ دیتی ہیں اس کی کیا حیثیت اورنوعیت ہے؟اورکہاں سےآتاہے؟اورکیوں کرآتا ہے؟

ظاہر ہےکہ وہ صدقہ وخیرات یاتحفہ وہدیہ توہےنہیں اورنہ ہی قرض ہےپھر دوہی صورتین ہوسکتی ہیں:ایک :یہ کہ بیمہ کمپنی جمع شدہ روپیہ دوسروں سود پردیتی ہواوراس میں ایک معین حصہ بیمہ کرانے والوں کوبانٹ دیتی ہوجیساکہ عام بینکوں کاطریقہ ہے۔یایہ کہ بیمہ خود ہی اس روپیہ سےتجارت کرے اوراس کےمنافع سےایک معین اورطے سدہ حصہ بیمہ کرانے والوں کےحساب میں جمع کرتی رہے اوریہ بلاشبہ سود ہےکیونکہ اصل رقم کےعلاوہ طےشدہ منافع کےاداکرنےہی کانام سود ہے۔

اوریہ خیال وتوجیہ کہ بیمہ کرانےوالے اس تجارت میں شریک یارب المال اورمضارب کی حیثیت رکھتے ہیں اوربیمہ کمپنی عامل ومضارب(بفتح الراء)کی حیثیت رکھتی ہے پس زائد رقم اس حیثیت سےبیمہ کرانےوالوں کےلئےحلال وطیب ہوگی غلط اورباطل ہے اس لئےکہ اگرصورت حال ہوتو ان شرکاء یاارباب اموال (بیمہ کرانےوالوں)کوایک طےشدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے بلکہ کمی اوربیشی کاساتھ نفع اورنقصان دونوں شریک رہناچاہیے اوریہاں ایک طے شدہ معین ہی نفع (زائدرقم) ملتا ہے۔اورسوال میں ذکر کردہ صورت یاتوجیہ بھی صحیح نہیں اس لئےکہ بیمہ کمپنیاں عام طور اصل رقم سےجوکچھ زائد دیتی ہیں اس کی اس شرح اورمقدار پہلے ہی معین کردیتی ہیں۔اوراگر کمپنی اس اصولا معین نہ کرتی ہوبلکہ زائد رقم کوسالانہ نفع اورنقصان کالحاظ کرکے فیصد پررکھتی ہوتب بھی یہ طریقہ وجہ جواز نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کاروبار میں نقصان کاسوال ہی نہیں آنے دیاجاتا ونیز بیمہ کمپنیون کےمتفقہ اصولوں میں سےبعض  ایسے اصول بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ ساراکاروبار اورڈھانچہ ہی شرعا ناجائز ہے۔کماسیاتی

دسروی صورت یہ ہوسکتی ہےکہ پہلے:بیمہ کرانے والوں کوبعد کےبیمہ کرانے والوں کاروپیہ دیاجاتا ہو لیکن اس طرح ایک رقم دوسرے کودیدینے کاحق توشرعا کسی کوبھی نہیں ہےایسی صورت میں جواز کافتوی دیناسودیاقمار کافتوی دینا نہیں اورکیا ہے۔

اورکچھ رقم جمع کرنے کےبعدبقیہ اقساط کےقصدا یامجبورا نہ ادا کرنےکی صورت میں اداشدہ قسطوں کاضبط کرلینا کسی شرعی ضابطہ کی روسے ہے؟یہ اکل مال باطل نہیں تواورکیا ہے؟ ونیز بیمہ کرانےوالوں کےلئےایسے کاروبار کرنے والوں کاروپیہ دیناجوبغیرکسی شرعی سبب کے ان کی رقم ایک غلط اصول کی روسےہضم کرلیں کہاں سےشرعا جائز ہے؟

بہرحال انشورنس کاکاروبار شرعا ناجائز ہے۔یہ یورپ کےنظام سرمایہ داری کاایک طبعی تقاضا اوراس کاتصور بھی اسلامیت سےسخت بعید ہے پس زندگی وغیرہ کابیمہ کراناکیوں کرناجائز ہوگا۔واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 341

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ