السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سید الفاضل الجلیل حضرت الاستاذ مولاناشیخ الحدیث صاحب/مدظلہ العالی٭
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته:
میرے پاس ایک استفتاء آیا ہوا ہےکہ ریزگاری کی مصیبت آج کل بہت ہے حتی کہ بچارے غرباءاپنی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتے ایسی حالت میں بجائےاس کےان بچاروں کی ہمدری کی جائے وہ لوگ کہاں تک صحیح راہ پر ہیں جوریز گاری میں اپنادھنداکررہےہیں ورپیہ لےکر پندرہ آنےیاچودہ آنےواپس کرتے ہیں۔میرے نزدیک تویہ انسانیت اوراخلاقی ومروت کےخلاف ہےکہ اس غریب مصیبت کامرا خود پریشان ہےاس کواورچوس کرظلم کی جائے اگراس کوبھی سود نہی کہاجائےتوکیاہے۔مولاناامرتسری کےوالد محترم اس کےجواز کےقائل ہیں جناب اس میں اپنی کارائےعالی رکھتےہیں؟اوراس کےمفصل دلائل کیاہیں؟مفتی (اعظم)بھی اسی طرف ہے جوکہ مولاناامرتسری کاخیال ہے۔آپ جلد سےجلد برائےکرم جواب سے سرفراز فرمائیے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سونے اورچاندی کےاندر حرمت ربوااورنسئہ کی حلت ائمہ ثلاثہ امام شافعی مالک احمد کےنزدیک ان کاخلقہ ثمن ہونا ہے اوریہ علت کاغذ اوردوسری دھاتوں کےاندر متحقق نہیں ہے جواصطلاحاثمن بنائی گئیں ہیں۔آج کل موجودہ نئے روپیہ اورنئی چوٹی اٹہنی میں محض برائےنام چاندی ہوتی ہےاورغش یعنی :دوسری دھاتیں زیادہ مقدار میں ہوتی ہیں اس لئےیہ مروجے سکے قطعا چاندی اوردرہم کےحکم میں نہیں ہیں اورجب یہ روپیے چاندی کےحکم میں نہیں ہےتواس کاقائم مقام نوٹ توبدرجہ اولی چاندی کےحکم میں نہیں ہوگابنابریں موجود روپیہ یانوٹ کےبدلے میں ریزگاری بٹہ کےساتھ لین اوردین میں شرعا جائز ہےاگروہ ریزگاری پیسہ ادھنی اکنی پرانی اورنئی اوردونی پرانی بڑی چونی ہےتوبٹہ کےساتھ تبادلہ کرنےکاجواز بالکل کھلا ہوا ہے۔کیوں کہ ان میں کسی کےاندر چاندی نہیں ہے اورروپیہ کےاندر محض بڑے نام ہوتی ہےجس کااعتبار نہیں ہےتوگویا ایک دھات والے سکے(جس میں محض نام کی چاندی ہے)کی بیع دوسری سا اس دھات والوں سکوں کےعوض میں ہوئی جس میں نام کوبھی چاند نہیں اس لئے معاملہ میں کمی بیشی بلاشبہ جائزہوگی اوربٹہ ممنوع نہیں ہوگااوراگر یہ ریز گاری نئی چونی اوراٹہنی ہےتب بٹہ کےساتھ تبادلہ جائز ہوگاکیونکہ جیسا روپیہ ہےویسے ہی یہ چونیاں اوراٹھنیاں ہیں دونوں عوضوں میں سے ایک بھی چاندی کاسکہ نہیں ہے پس سا معاملہ میں ربو(سود) کاشبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔
ہاں آج کل غیرقدرتی بلکہ جعلی اورمصنوعی قحط کےزمانہ میں ریزگاری کایہ معاملہ میرےنزدیک بیع مضطر میں داخل ہے اورآنحضرت نےبیع مضطر سےمنع فرمایا ۔ابوداؤد شریف میں ہے: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، - أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ ابْنُ عِيسَى: هَكَذَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ - قَالَ: سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ} [البقرة: 237] وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ «وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَبَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ»
یقینا اسلام ضرور ت مند وں کی ضروت اورمجبوری سےناجائز فائدہ اٹھاتےکی اجازت نہیں دیتا۔پس ریزگاری کاموجودہ کاروبار اس قابل ہےکہ اس کوسختی سےروکاجائے۔واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب