السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں ایک تحریک محمدی کا آدمی ہے وہ کہتا ہے کہ تراویح باجماعت پڑھنا گناہ ہے۔ دلیل یہ دیتا ہے کہ آپﷺنے تین دن کے بعد منع فرمایا تھا۔ خیر اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم تو دیا ہے لیکن خود نہ باجماعت پڑھی ہیں نہ پڑھائی ہیں۔ اگر آپ ثابت کر دیں تو میں تسلیم کر لوں گا ۔ (۱) تو آپ تفصیل سے یہ بتائیں کہ نبیﷺنے رمضان کی فرضیت کے بعد صرف تین دن پڑھائی ہیں یا اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ (۲) عہد ابوبکررضی اللہ عنہ میں تراویح باجماعت کیوں نہیں ہو سکی ؟ (۳) اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ باجماعت پڑھی ہیں یا پڑھائی ہیں تو حوالہ دے دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات درست ہے کہ رسول اللہﷺنے رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو چند راتیں قیام کروایا پھر اس صلاۃ اللیل کی جماعت نہیں کروائی فرض ہونے کے خطرہ کو بطور عذر پیش فرمایا نیز ابوداود ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ قیام رمضان کے باب میں ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هٰذِهِ اللَّيْلَةِ ۔ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلّٰی مَعَ الإِمَامِ حَتَّی يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ‘‘ (ابوداؤد ابواب شھر رمضان باب فی قیام شھر رمضان ترمذی۔الصوم باب ما جاء فی قیام شھر رمضان)
’’میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! کاش آپ ہمیں باقی رات بھی قیام فرماتے آپﷺ نے فرمایا بے شک ایک شخص جہاں امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوتا ہے اس کے نامہ اعمال میں رات کے قیام کا ثواب ثبت ہو جاتا ہے‘‘ تو اس قولی حدیث کی بنیاد پر سارا رمضان قیام باجماعت کیا جاتا ہے نہ کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول یا عمل کی بنیاد پر آپ نے سوال میں لکھا ہے ’’آپﷺنے تین دن کے بعد منع فرما دیا تھا‘‘ یہ درست نہیں کیونکہ آپ نے فرمایا «فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلاَةِ الْمَرْئِ فِیْ بَيْتِهِ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَةَ» (بخاری الاذان باب صلاۃ اللیل ۔مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ وجوازہا فی المسجد)’’پس بے شک آدمی کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے سوائے فرض کے ‘‘ جس سے ممانعت نہیں نکلتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب