السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دھڑی کوئی غلہ دے کر کچھ عرصہ کےبعد دھڑی گیہوں وابس لیناجائز ہے یانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اشیاءربویہ کےتبادلہ بیع وشرا(خرید وفروخت) کی صورت میں ہو جس کی بنامماکست اورتنازع پرہوتی ہے۔اوراگر تبادلہ بشکل بیع وشراء نہ ہو بلکہ علی سبیل القرض ہوجس کی بنا اغماض ومسامحت اوراحسان وسلوک پر ہوتی ہےتونسئہ کوئی مضائقہ نہیں خواہ متحدالجنس ہوں یا مختلف الجنس بلکہ تفاضل بھی جائز ہےبشرطیکہ قرض میں زیادہ کاعرف رواج نہ ہواورطرفین سےاس کاوعدہ یاشرط کرلی گئی ہو۔خلاصہ یہ ہےکہ بیع وشر اورقرض میں فرق ہےجس کی رعایت ضروری ہے۔
قال الامام البخارى فى صحيحه84/2: بَابُ إِذَا قَاصَّ أَوْ جَازَفَهُ فِي الدَّيْنِ تَمْرًا بِتَمْرٍ أَوْ غَيْرِهِ ومقصودأن الوفاءيجوزفيه مالايجوزفى المعاوضات يجوز إلافى العرايا وقدجوزه النبى صلي الله عليه وسلم فى الوفاءالمحض فان بناء على الاغماض والمعروف والمسامحة دون المماكسة وذلك بين فى حديث جابر الذى اخرجه البخارى فان صلى الله عليه وسلم سال الغريم ان ياخذتمر الحافظ وهو مجهول القندر فى الاوساق التى هي معلومة وكان ثمر الحائط دون التى له كماوقع والتصريح بذلك فى كتاب الصلح من وجه آخر وفيه فأبوولم يروا ان فيه وفاء.
صورت مسؤلہ میں اگر مختلف الجنس عوضین کی قیمتوں میں تفاوت ہےیعنی :گیہوں کی قیمت زیادہ ہےاورغلہ قرض دینےوالے نےادھار دیتےوقت خاص گیہوں لینے کی شرط کرلی تھی تویہ صورت درست نہیں۔کیوں کہ اس شرط کی وجہ سے یہ معاملہ قرض کانہیں رہا۔جس کی بنا احسان پرہے بلکہ بیع ہوگیاجس میں مماکست اورنفع طلبی مقصود ہوتی ہےاورچوں کہ ربویہ بیع میں نسئہ ناجائز ہےاس لئے بوجہ شرط کرلینے کےگیہوں لیناجائز ہوگا۔اوراگر گیہوں لینے کی شرط نہیں کی تھی بلکہ مستقرض نے خود گیہوں دیدی تواس کےلینےمیں حرج نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب