سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) اناج گندم وغیرہ نرخ کے خلاف ادھار میں قیمت بڑھانا

  • 17474
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1234

سوال

(148) اناج گندم وغیرہ نرخ کے خلاف ادھار میں قیمت بڑھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک تبلیغی جلسہ میں ہمارے کسی بھائی نےعلماء کرام کےسامنےبطوراستفتاءیہ مسئلہ پیش کیا:اناج گندم وغیرہ نرخ کےخلاف اودھار کی صورت میں قیمت بڑھا کرفروخت کرناجائز ہے یانہیں؟تودومولوی صاحبان نےدومتضاد فتوے لکھ کردیئے جن کاخلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

گذارش ہے کہ ہر ان دوفتوؤں پربامعان نظر غور فرماکرمحاکمہ فرمادیں کہ کونسا فتوی صحیح ہے؟اوروجوہ ترجیح بھی رقم فرمادیں اس مسئلہ کی ہمارےملک میں بہت چھیڑ چھاڑرہتی ہے۔اورزمینداروں کےلین دین میں اکثر پیش آتا ہے۔لہذا ضرور مدلل محاکمہ فرمادیں۔

سائل کےسوال کےجواب میں ایک مولوی صاحب یوں لکھتے ہیں:

ہاں درست ہےکیوں کہ منع کی کوئی دلیل نہیں۔اس کےجواز عام ادلہ دلالت کرتی ہیں جن سے بتراضی فریقین بیع جائز ثابت ہے۔لیکن خاص یہ صورت بعینہ کسی حدیث میں مذکور نہیں۔لہذا عموم ادلہ کےتحت جائز ہوگی۔نیل الاوطار250/5میں ہے وقالت الشافعيه والحنفيه وزيد بن على والمؤيد بالله والجمهور أنه يجوز لعموم الادلة القاضية بجواز وهو الظاهر كذا فى الفتاوى النذريرة.

دوسرصاحب اس کےخلاف یوں رقم طراز ہیں:

صورت مذکورہ بالا صورت بیاج کی ہے۔قال الله تعالى:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾ (سورة النساء:29)يہ بیع عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ کے خلاف ہےکیوں کہ وہ بڑھ کرلینے والا مجبور راضی ہوتاہےبخوشی دل نہیں چاہتا کہ بجائے دس روپئے کابارہ روپے دے اوریہ اظہر من الشمس ہے۔اگرظاہری رضامندی سبب جواز ہوجائے توبیاج پربھی رضاطرفین ہوجاتی ہےدیگر صحیح حدیث میں وارد ہے کہ (لارباإلاالنسيئة)رواه البخارى اورظاہرہے کہ مزید عوض ادھارکےہے

پس مسئلہ یہ ہے کہ گندم نوروپے من نقدی فروخت ہوتی ہے۔ایک غریب نقد قیمت نہیں دےسکتا وہ ادھار پرگندم خرید ناچاہتا  ہے۔بائع کہتا ہےکہ ادھار پرلے جاؤبارہ من دوگا۔مشتری منظور کرکےلیتا ہےاورحسب وعدہ قیمت چھ ماہ یاسال کواداکردیتا ہے۔یہ جائز ہےیانہیں؟علماء مختلف الرائے ہیں۔آپ محققانہ محاکمہ صادر فرمائیں۔دیگر یہ عرض ہےکہ امام شوکانی نےاس مبحث پرایک رسالہ بھی شائع کیاتھا جس کاذکر نیل میں ہےوہ کہیں ملتا ہوتواطلاع فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرےنزدیک مجیب اول جواب  جواب حق اورصحیح ہے اورمجیب ثانی کامخدوش وغیرہ صحیح ۔میرےنزدیک اس طرح کی بیع جائز اورمباح ہے۔

(1)قرون مشہوردلہابالخیر سےاب تک اس پرعمل ہوتاچلاآیا ہےكمايظهر من تفسيربيعتين فى بيعة وإلالما احتيج إلى النهى عن ذلك ولايخفى أن علة النهى ومناط المنع فيما قيل إنما هوعدم استقرار الثمن والايتحقق ذلك إلا أذقال :نقد بكذاونسئه بكذا ولايفارق على احدالثمنين فهذه هى صورةبيعتين فى بيعة اذافارق على احدالثمنين فلايشمله النهي المذكوروكذا لايدل الحديث المذكوره على منع ماقال من اول الامر نبئسه بكذا فقط وكان اكثر من سعر يومه وقد نبه ذلك العلامه الشوكاني فى النيل والسيل الجرار ولم يرد حديث آخريمنع من ذلك ويدل على النهى عنه فلاينبغى ان يشك فى جوازه ون ادعى المنع فعليه أن يأتى بدليل صريح قوى دونه قلل الجبال.

(2)  معاملات میں اصل اباحت ہےتاوقتیکہ کوئی دلیل کراہت ومنع کی موجود نہ ہو۔وہ معاملہ مباح رہےگاارشاد ہے:ماسكت عنه فهوعفو(أكماقال)ترمذي

(3)  بيع کےجواز کامدار اگر عوضین اشیاء متقوضہ عندالشرع سے ہیں اوران کی بیع کی حرمت پرکوئی صریح نص موجود نہیں ہےتراضی طرفین پرہےاورصورت متنازع فیہا میں فریقین کی رضامندی بلاشبہ متحقق ہے۔اس لئےیہ بیع جائز ہوگی۔ماراه المسلمون حسنا فهو عندالله حسن الحديث(ابن مسعود وقدروى مرفوعا الى النبى صلى الله عليه وسلم

مجیب ثانی نےصورت متنازع فیہماکوبیاج بتاتے ہوئےمنع کی دلیل ذکر کی ہیں:

 دلیل اول کاخلاصہ یہ ہے کہ بیع کےجواز کےلئےقلبی رضا مندی شرط ہےاورزیادہ قیمت دے کرخریدنےوالا زیادہ قیمت دینےپردل سےراضی نہیں ہوتا اوراگر ظاہری رضامندی کافی ہوجائےتوبیاج بھی جائز ہوناچاہیے کیوں کہ یہ معاملہ بھی طرفین کی رضامندی سےہوتاہے۔

تنقید

(1)  فاضل مجیب  کافرض تھاکہ بیع کےجواز کےلئے قلبی رضا کےتحقیق کی شرطیت پردلیل قائم کرتے لیکن افسوس ہےکہ انہوں نےاس پرکوئی دلیل نہیں پیش کی اورنہ پیش کرسکتےہیں۔ہمارے نزدیک ولی رضا مندی کاوجود تحقق صحت بیع کےلئےشرط نہیں ہے۔

(1)  اس لئےکہ کسی دلیل شرعی سےاس کی شرطیت ثابت نہیں۔

(2)  اوراس لئے کہ زیادہ اس صورت کوبیع المضطر کی صورت ثانی کامصداق قراردیاجاسکتاہے۔اوربیع المضطر اگرچہ اہل علم کےنزدیک مکروہ ہےلیکن سب کےنزدیک صحیح ہوجاتی ہے عون المعبود (235/9)حتی کہ صاحب حدائق الازہار جوبیع متنازع فیہا کوحرام کہتےہیں: ويحرم بيع الشئى باكثر من سعر يومه لاجل النساء بيع مضطر کوصحیح قراردیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں

(3)ویصحان من الاعمی ومنالمصمت ومن الاخرس بالاشارة وكل عقدإلا الاربعة ومن مضطر ولوغبن فاحشا الاللجوع

معلوم ہوا کہ ان کےنزدیک صورت متنازع فیہاکی حرمت کی وجہ یہ نہیں ہےکہ قلبی رضامندی مفقود ہے۔ورنہ مضطر کوبھی ممنوع قرار دیتے ۔اس سےصاف ثابت ہوتاہےکہ مانعین کےنزدیک بھی صحت بیع کےلئےقلبی رضا مندی ضروری نہیں ہے۔

(4)  اوراس کےلئے کہ اشیاء ستہ ربویہ منصوصہ میں اتحاد جنس کےوقت بغیرتاضل کےنقد بیع جائز ہوتی ہے خواہ عوضین ردی ہوں یا جید ہوں یا ایک ردی ہو اوردوسرا جید غرض جودۃاوررداءۃ کااعتبار نہیں ہوتااورکھوٹے سونے کاعمدہ سونےکےبدلے میںبچتا اسی وقت جائز ہوگا جب دونوں وزن میں برابر ہوں اورنقدنقدمعاملہ ۔اوریہ ظاہر ہےکہ کوئی شخص بھی عمدہ کوردی کےعوض میں برابر سرابرافروخت کرنےکےلئےدل سےراضی نہیں ہوگا لیکن باوجود عدم تحقق رضا قلب کےیہ بیع شرعاجائز او رصحیح ہوتی ہے۔معلوم ہواکہ رضاقلبی کااعتبار اس طرح نہیں ہےجیساکہ مجیب نےسمجھاہے۔

(4)اوراس لئے کہ مبیع کےعیب پرمطلع ہونےکےبعد عدم رضا کےباعث مشتری کواختیار ہوتا ہےکہ بیع کورد کردے۔فوراسرےسے بیع کےباطل اورکالعدم ہونےکاحکم نہیں لگادیاجاتا۔غرض یہ ہےکہ اطلاع علی العیب کےبعد مشتری کی رضا قلبی کاتحقق نہیں ہوتا اوراس کواس کےبعد اختیار ہوتا ہےکہ بیع کودرکردےیاراضی ہوکر بیع لازم کردے۔

عدم تحقق رضائے قلبی کےزمانے میں لزوم بیع کاتوقف علامت ہےاس امر کی کہ بیع کی صحت کےلئے دلی رضامندی کی تحقیق ضروری نہیں ہے۔ورنہ اطلاع علی الغیب کےبعدیہ بیع فورا ہی باطل ہوجاتی ہےاوراگر مشتری آگے چل کراس مبیع معیوب پراضی ہوتا توتجدید بیع ہوجاتی ہے۔اوریہ معلوم ہےکہ تجدید بیع کی ضرورت نہیں ہوتی۔

(5)اوراس لئے کہ واقعی رضاء قلبی کاتحقق شرط ہےتولازم ہوگا کہ جنگ کےزمانے میں اس شخص کےلئےبھی کنٹرول سےزیادہ قیمت پرفروخت کرناشرعا جائز نہ ہوجس نےکوئی چیز مقرر قیمت سےزیادہ پرخریدی ہو۔کون ہےجومقررقیمت سےزیادہ دوگنی چوگنی قیمت پرخریدنے کےتیار ہوگا!!۔پس بسبب عدم تحقق رضاقلبی کےبیع ناجائز  ہونے چاہیے۔اور میں خیال کرتاہوں کہ فاضل مجیب باوجود عدم تحقق رضاءقلبی کےاس بیع کوممنوع اورناجائز نہ سمجھتے ہوں گے۔

(6)  اور اس لئے کہ سنت الہی یوں جاری ہےکہ جوامور قلوب میں نفوس میں پوشیدہ اورمخفی ہیں ان کوافعال واقوال ظاہرہ کے ذریعہ ضبط کیاجائے اوریہی اقوال ظاہرہ امورقلبیہ کےقائم مقام ہوں۔چنانچہ اللہ اوراس کےرسول اورآخرت کی تصدیق ایک مخفی امر ہےتوایمان کااقرار تصدیق قلبی کےقائم مقام کردیاگیا اوراسی اقرار ایمان کےاحکام دائر ہوگئے۔اس طرح قیمت اورمبیع کےتبادلہ پرمتعاقدین کی رضا ایک پوشیدہ امر ہےتوایجاب وقبول کورضا ءمخفی کےقائم مقام کردیاگیا اوراسی ایجاب وقبول پربیع کےاحکام دائر ہوگئےیعنی:قیمت اورمبیع میں تصرف کرنا اورہبہ وواثت وغیرہ سب جائز ہوجاتے ہیں۔بنابریں صورت مسؤلہ میں جب  جرواکراہ کےطرفین طرف سےایجاب وقبول پایاگیا جوعلامت ہےوجودرضاءکی توبیع جائز اورصحیح ہوگی۔

(7) اوراس لئےکہ شرعا بیع مرابحہ جائز ہےاورربح کی کوئی مقدار معین نہیں ہےکہ بائع اس سے زیادہ ربح کےساتھ نہ فروخت کرسکتاہوں ہان غبن فاحش نہیں ہوناچاہیے۔اور ہرمشتری کی یہ خواہش ہوتی ہےکہ مبیع اس کواصلی قیمت پرمل جائے یااگربائع کچھ نفع کےساتھ فرو خت کرناچاہتا ہوتوبہت تھوڑے نفع پرقناعت کرے۔غرضیکہ اولا:تووہ مرابحہ پرخوب راضی نہیں ہوگا۔اوراگر مجبور اس کومرابحہ کامعاملہ کرنا ہی پڑے تووہ ذبح کثیر دینے پرقطعا دل سے راضی نہیں ہوگا لہذا فاضل مجیب کی تحقیق کےمطابق عدم تحقق رضا قلبی کی وجہ سےبیع مرابحہ بربح کثیر ناجائز ہوناچاہیے لیکن واقعہ یہ ہے کہ شرعا ایسی بیع جائز اورمباح ہے۔معلوم ہواکہ تحقق رضا قلبی حقیقہ شرط نہیں ہے۔

(2)اوراگربالفرض واقعی دلی رضاءکاتحقق اورحصول شرط ہوتوصورت متنازع فیہا میں دلی رضا کےفقدان پرکوئی دلیل اورقرینہ واضحہ بینہ موجود نہیں ہے۔فاضل مجیب نےاس چیز کومن الشمس بتاتےہوئے اپنے خیال میں ایک قرینہ پیش کیا کہ دس کے بجائے بارہ دینےے پردل بخوشی راضی نہیں ہوسکتا۔

لیکن میرے نزدیک یہ چیز عدم تحقق رضا کی دلیل نہیں بن سکتی ۔کیوں کہ بیع المحاویج میں ایک بیع سلم بھی ہےجوباتفاق امت جائز اورمشروع ہے۔حالاں کہ اس بیع میں رب السلم زرسلم راس المال کوپیشگی دینے کےباعث زمان تسلیم کےعام نرخ سےزیادہ نرخ پرمسلم الیہ سےمعاملہ طے کرتا ہے(مثلا:اگر اس وقت نرخ عام طورپر10سیر کاہوگا تووہ12سیرپرمعاملہ کرےگا اورمسلم الیہ روپیہ کی ضرورت سےمجبور ہوکر مسلم فیہ کوعام نرخ سےزیادہ دینے پرراضی ہوجاتا ہےاورظاہر ہےکہ دس سیر کےبجائے12سیر دینے پردل سےکون راضی ہوگا!!)لیکن یہ معلوم ہے کہ ظاہری رضا معتبر ہوجاتی ہےاوربیع شرعا صحیح ہوتی ہےاورکوئی صاحب نظر اس مجبوری وضرورت کوعدم تحقق رضاء قلبی کاقرینہ قراردے کر بیع سلم کوناجائز نہیں کہتا۔پس اس طرح صورت متنازع فیہامیں بھی فاضل مجیب کاپیش کردہ عدم رضائے قلبی کاقرینہ نہیں ہوسکتا اوربالفرض ہوبی توظاہر رضاکافی ہوجائے گی۔

(2)اورکیوں کہ اس  طرح کی بیع عام طور پررائج اورمعروف ہےیعنی :اس کاتعلق عموم البلوی سےہے اورلوگوں کواس معاملہ کی ایک طرح عادت ہوچکی ہے۔اورلوگ اس بیع کونئی چیز نہیں سمجھتے اوراس کاعام دستور ہوچکا ہےاس لئےظاہریہ ہےکہ مشتری اس بیع کواپنی رضامندی کرتا ہےلہذا قلبی رضامندی کےفقدان کادعوی کرناناقابل فہم ہے۔اس کایہ مطلب نہیں ہےکہ اگر نصاممنوع بیع کی عادت لوگوں کوہوجائے تووہ بھی جائز ہوجائے۔فافہم.

(3) اورکیوں کہ رضا قلبی ایک ایسی چیز ہےکہ اس کاعلم صرف مبتلی بہ کوہوسکتاہےدوسرا شخص اس کےمتعلق اس یہ حکم نہیں لگاسکتا کہ اس کادل اس معاملہ سےراضی نہیں ہے۔إلاأن يخبربه المبتلى به أوتوجدقرينة واضحة قوية تدل على عدم تحقق الرضاپس جب مشتری بغیرجبرواکراہ کےعام رواج کےمطابق یہ معاملہ کررہا ہےتواظہریہ ہےکہ دلی رضاسےکررہاہے۔مشہور ہے:مرگ انبوہ جشنےدارد۔

(4)اورکیوں کہ فاضل مجیب نےمشتری کومکروہ قرادینےکےباعث اس بیع میں عدم حصول رضاقلب کادعوی کیا ہےلیکن یہ واقعہ اورحقیقت ثابتہ ہےکہ صورت متنازع فیہا میں مشتری مکرہ نہیں ہے۔یعنی :وہ اکراہ متحقق نہیں ہےجس میں رضا قلبی مفقود ہوتی ہےاورشرعا فساد بیع کاموجب ہوتا ہے۔

(5)اورکیوں کہ رضا قلب کلی مشکک ہےاس کی وافر متساویہ الاقدام نہیں ہوں گے تحقق رضا میں تفاوت ہوگا تشکیک ہوگی۔لہذا صورت متنازعہ فیہا میں زیادہ سےزیادہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ علی وجہ الکمال والتمام رضاقلبی کاتحقق نہیں ہے۔یعنی:رضا اکمل نہیں پائی  گئی۔دوسرے سےرضاءکےوجود کی نفی کردینی کسی طرح معقول نہیں ہوسکتی۔

فاضل مجیب نےیہ عجیب وغریب دعوی کیا ہےکہ اگر ظاہر رضاسبب جواز ہوجائے توبیاج پربھی طرفین کی رضا ہوجاتی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ :اگرظاہری رضامندی کافی ہوجائے توچوں کہ بیاج کامعاملہ بھی طرفین کی رضا سےہوتاہے۔لہذا اس کوناجائز نہیں کہنا چاہیے۔لیکن محض قلبی رضا کےفقدان اورظاہری رضا کےعدم اعتبار کےباعث سماج کامعاملہ شرعا ناجائز اورحرام ہے۔اس تقریر سےظاہر ہوتاہےکہ موصوف کےنزدیک بیاج کےمعاملہ کی حرمت کی وجہ اورعلت وسبب عدم وجودرضاءقلب ہےاوربس لیکن حقیقت یہ ہےکہ ربوہ اوربیاج کی حرمت کی یہ علت فاضل موصوف کی مخترع اورایجاد کردہ ہےاوران کےدماغ کی اپج ہے۔کتاب وسنت میں یہ سب کہیں مذکور نہیں ہے نہ صراحۃ نہ اشارہ ۔صرف حرمت منصوص اور مصرح ہےاورعلت وسبب مذکور نہیں ہےاوراحکام منصوصہ مصرحہ میں جن  کے علل ومصالح منصوص ومصرح نہ ہوں علت اورمصلحت وحکمۃ کےپیچھے پڑکر اپنے دماغ سےکسی حکمت وعلت کوگھڑنا اوراس کوعلی سبیل الجزم حکم(حلت وحرمت یاجواز اباحت یاوجوب وفرضیت) کامدار مناط قراردینا اصحاب حدیث کی شان کےلائق نہیں بلکہ ان کی روش کےبالکل خلاف ہے۔یہ طریقہ فقہاءمحدثین کانہیں ہےبلکہ اہل الرائے کاہے۔

ربوافی نفسہ ایک قبیح اورحرام چیز ہے۔یہاں تک کہ اس قباحتوں اورمضرتوں پریورپ اورایشا بلکہ ساری دنیا کےعقلا ءمتفق ہیں۔اورجب اس کی حرمت بغیر ذکر سبب وعلت کےمصرح ہےتوسبب اوروجہ کےپیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔مومن قانت کی شان یہ ہےکہ حکم الہی کےسامنے شرخم کردے اورلم ولانہ کرے کہ یہ چیز عبدیت کےقطعا منافی ہے۔ہاں اگر کوئی سبب ذہن میں آجائےتواس کومحض ظن کادرجہ دینا چاہیے اوریہ حکم نہیں لگادینا چاہیے کہ بلاشبہ شارع کےنزدیک بھی حکم کایہی سبب ہےاورجب وہ محض ظنی ہوا تواس کےبارے میں یہ قاعدہ الحکم یدور مع العلۃ نہیں چل سکتا۔اورمیں توکہتا ہوں کاآج کل بیمہ کمپنیوں بنکو ں تجارتی کمپنیوں کےربوی معاملات بلاشبہ فریقین کی دلی رضامندی سےہوتے ہیں لہذا فاضل مجیب کی بیان کردہ علت اوران کی تحقیق کےمطابق بنکوں اوربیمہ کمپنیوں وغیرہ کاربوی کاروبار جائز اورمباح ہوناچاہیے کیونکہ یہاں صرف رضا مندی نہیں بلکہ رضا قلبی  مندی بھی متحقق ہے۔

فاضل مجیب کی دوسری دلیل بھی مخدوش ہے۔اس لئےکہ لاربا الافی النسئۃ کاظاہر معنی قطعامراد نہیں ہےورنہ ربوالفضل کوجائز کہناپڑےگا کماذھب اليه ابن عباس وابن عمر قال الرجوع الى قول الجمهور ونيز لازم ہوگا کہ ادھار خرید وفروخت جائز بھی  نہ ہو اشیاءربویہ میں نہ غیر ربویہ کا۔کیونکہ ارشاد مذکور کاظاہر  معنی یہ ہے کہ ربواا کاتحقق صرف ادھار کی صورت میں ہے خواہ ادھار کی کچھ ہی صورت کیوں نہ ہو۔حالاں کہ ربوالفضل بلاشبہ اشیاءربویہ حرام ہےاورغیر ربویہ کی بہت سی صورتوں میں ادھار کامعاملہ بالاتفاق جائز ہے۔پس لامحالہ ہم کواس تفسیر کےلئےکتب غریب الحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑےگا۔اوریہ دیکھناہوگا کہ عہدنبوی میں ربا کی کونسی صورت رائج تھی؟اورآنحضرت ﷺنےکس موقع پرجملہ مذکورہ انما الربوافی النسئۃ ارشاد فرمایاہے؟پس غور سےپڑھے علامہ جزری لکھتے ہیں –بالتاخير من غير تقابض هولربا وان كان بغير زيادة وهذا مذهب ابن عباس كان يرى بيع الربويات متفاضلة مع التابض جائز وأن الربا مخصوصة بالنسئية(النهاية45/5)يہی معنی تقریبا تمام شراح حدیث نےلکھا ہے۔

اب دیکھئےکہ عرب جاہلیۃ میں ربا کی کونسی صورت مروج تھی؟موطامالک(ص468)میں ہے: مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ الرِّبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الْحَقُّ، إِلَى أَجَلٍ. فَإِذَا حَلَّ الْحَقُّ، قَالَ: أَتَقْضِي، أَمْ تُرْبِي؟

فَإِنْ قَضَى (1)، أَخَذَ. وَإِلاَّ زَادَهُ فِي حَقِّهِ. وَأَخَّرَ عَنْهُ فِي الْأَجَلِ.انتهى علامه زرقانی اس کی شرح (324/3)میں لکھتے ہیں: بِمَعْنَى زَادَ لَهُ (فِي الْأَجَلِ) وَلَا خِلَافَ أَنَّ هَذَا الرِّبَا الَّذِي حَرَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَلَمْ تَعْرِفِ الْعَرَبُ الرِّبَا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ، فَنَزَلَ الْقُرْآنُ بِذَلِكَ، وَزَادَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بَيَانًا وَحَرَّمَ رِبَا الْفَضْلِ كَمَا مَرَّ، قَالَهُ أَبن عبدالبر انتهى

اس كے ساتھ ان کی توجیہات کوبھی سامنےرکھئے جوشرح حدیث (نووی کرمانی حافظ وغیرہ) نےحدیث مذکور اوراحادیث حرمۃ ربوالفضل کےدرمیان تتطبیق کےلئےتحریر کی ہیں۔ان تمام باتوں سےواضح طور پر یہ متحقق ہوتا ہے کہ حدیث مذکور کامعنی وہ نہیں ہے جوفاضل مجیب نےسمجھا ہے اوریہ کہ اس کاصحیح معنی اورتفسیر صورت متنازعہ فیہا قطعا منطبق نہیں ہوتی۔اس لئے وہ علما ءبھی جوضع وتعجل کو منع سمجھتے ہیں اورمقابل الاجل بالدارہم ربا(مبسوط سرخسی126/13) جن کامقولہ ہے۔صورت متنازعہ فیہا کوناجائز نہیں کہتے حالانکہ اس میں تاجیل اورنسئیہ کی وجہ سےقیمت زیادہ کردی گئی ہےاوربظاہر مقابلہ اجل کادراہم کےساتھ ہوگیا ہے۔وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ ان کےنزدیک حدیث انما الربا فی النسئۃکے مصداق سےصورت  سجوتہ عنہا خارج ہےاورزید بن اسلم کےقول میں ربا جاہلیہ کی بیان کردہ صورت سےعلماء نےجومنع کی علت اخذ کی ہے اورجوفاضل مجیب کی لغزش اوردھوکے کےباعث ہوگی وہ یہاں متحقق نہیں ہے مقابلۃ الاجل بالدارہم اہم مطلقا ممنوع نہیں ہے۔اس لئےصاحب ہدایہ باب المرابحہ والتولیہ 57/3میں لکھتے ہیں:ولهذايزاد فى الثمن لأجل لاجل انتهى قال صاحب البرهان شرح مواهب الرحمن:لان للاجل تاثير فى نقصان المالية فالتجار يشترون بالنقد أقل ممايشترون بالنسيئة انتهى.

معلوم ہواکہ مقابلہ الاجل بالدراہم بیع قرض کی خاص صورتوں میں ممنوع ہےاورصورت متنازع فیہا میں ادھار کی وجہ سےجس قدرقیمت زیادہ کردی جاتی ہےوہ حد منع سےخارج ہےاس لئےکہ یہ زیادہ ابتدا ہی سے بیع ظاہر کردی جاتی ہےاورممنوع دین معجل کی زیادہ مقابلہ میں مہلت دینےکےہے یادین مؤجل میں کمی مقابلہ میں تعجیل مابقی کےہےاوریہاں مشتری کےذمہ سے کوئی دین نہیں ہے کہ اس میں زیادہ واضافہ مقابلہ میں اجل کےکردی گئی ہو پس صورت ممنوعہ سےخارج ہے۔ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب علامہ شوکانی کےرسالہ شفاء الغلیل کے وجود کامجھ کوعلم نہیں شاید کسی یمنی کتب خانہ میں محفوظ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 323

محدث فتویٰ

تبصرے