السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
امام ترمذی نےکتاب البیوع میں جوتفسیر امام شافعی کی بیعتیں فی بیعہ لکھی ہےاورفرمایا: وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ اس کامطلب واضح الفاظ میں بیان کریں یہ تفارق بغیرثمن معلوم کیسےہوا؟جبکہ آپس میں فریقیں بشرط ذکرثمن ایجاب وقبول کرتے ہیں۔غور کرکے توجیہ وجیہ بیان کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیعیتں فی بیعۃ کی پانچ صورتیں ہیں جن کوابن رشد نےبدایہ (153/2)میں بالتفصیل بیان کیاہے۔ان میں امام ترمذی نےدوتفسیر ذکر کی ہے اورغالبا یہ دونوں تفسیریں امام شافعی کی بیان کردہ ہیں۔اگرچہ امام ترمذی نےپہلی تفسیر ان کی طرف منسوب نہیں کی ہے۔
جولوگ ان دونوں صورتوں کوناجائز کہتے ہیں ان کےنزدیک منع اورعدم جواز کی ایک علت جہالت ثمن بھی ہے غیر مالک فانہ عللہ بسند الذریعۃالموجبۃ للربا .اوربعض کےنزدیک عدم رضا بھی ہے لیکن یہ علت دوسری تفسیر کےساتھ مخصوص ہے۔بہرحال ہذاتفارق بغیرثمن معلم الخ دونوں صورتوں کےعدم جواز کی علت ہے۔
پہلی صورت میں تفارق بغیرثمن معلوم یعنی:ثمن کاغیرمعین اورمجہول ہوناتوظاہر ہےکیونکہ پہلی تفسیر کاماحصل اوراصل مقصود یہ ہےکہ بائع نےمشتری سےیہ کہاکہ :کپڑانقدادس روپئے میں اور ادھار بیس میں منےتمہارےہاتھ فروخت کردیا اورمشتری نےصرف یہ کہ: میں خریدلیایہ تعین نہیں کی کہ میں نےادھارخریدایا نقد خریدابلکہ بغیر ادھار یانقد کی تعیین کئےہوئے صرف اشتریت ثوبک ہذا کہہ کرالگ ہوگیا۔ظاہر ہےکہ بائع کوکچھ پتہ اورخبر نہیں کہ قیمت کپڑے کےدس روپئے مشتری کےذمہ واجب الادا ہوئی یابیس وہ کس قدر کامستحق ومالک ہوکہ اس کامشتری سےمطالبہ کرے ۔اسی طرح مشتری کوبھی معلو م نہیں کہ اس کےذمہ کون سی رقم واجب الادا ہے؟غرض یہ ثمن معین معلوم نہیں ہوئی بلکہ مجہول اورغیر معلوم رہی۔ہاں اگر مشتری نےقبول میں کہہ دیاکہ میں نےادھار خرید ایا یہ کہا کہ نقد خریدا تویہ تفارق عن بیع ثمن معلوم ومعین ہوا اورثمن مجہول وغیر معلوم نہیں رہی اس لیےجائز ہوگی۔ اس پہلی صورت میں خطابی فرماتے ہیں: فهذا لا يجوز لأنه لا يدري أيهما الثمن الذي يختاره منهما فيقع به العقد وإذا جهل الثمن بطل العقدقال:وأمااذا باته العقدين فى مجلس العقد فهو صحيح لاخلاف فيه وماسواه لغولااعتبار به انتهى(معالم السنن97/5)
وَلِأَنَّ الثَّمَنَ مَجْهُولٌ فَلَمْ يَصِحَّ كَالْبَيْعِ بِالرَّقْمِ الْمَجْهُولِ وَلِأَنَّ أَحَدَ الْعِوَضَيْنِ غَيْرُ مُعَيَّنٍ وَلَا مَعْلُومٍ فَلَمْ يَصِحَّ كَمَا لَوْ قَالَ بِعْتُك أَحَدَ عَبِيدِي وَقَدْ رُوِيَ عَنْ طَاوُسٍ وَالْحَكَمِ وَحَمَّادٍ أَنَّهُمْ قَالُوا لَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ أَبِعْك بِالنَّقْدِ بِكَذَا وَبِالنَّسِيئَةِ بِكَذَا فَيَذْهَبُ عَلَى أَحَدِهِمَا وَهَذَا مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّهُ جَرَى بَيْنَهُمَا بَعْدَمَا يَجْرِي فِي الْعَقْدِ فَكَأَنَّ الْمُشْتَرِيَ قَالَ أَنَا آخُذُهُ بِالنَّسِيئَةِ بِكَذَا فَقَالَ: خُذْهُ أَوْ قَدْ رَضِيتُ وَنَحْوُ ذَلِكَ فَيَكُونُ عَقْدًا كَافِيًا الخ
وقال ابن رشد: وَهَذَا عِنْدَ مَالِكٍ هُوَ الْمَانِعُ، فَعِلَّةُ امْتِنَاعِ هَذَا الْوَجْهِ الثَّالِثِ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ، وَأَبِي حَنِيفَةَ مِنْ جِهَةِ جَهْلِ الثَّمَنِ، فَهُوَ عِنْدَهُمَا مِنْ بُيُوعِ الْغَرَرِ الَّتِي نُهِيَ عَنْهَا; وَعِلَّةُ امْتِنَاعِهِ(بداية المجتهد184/2)
دوسری صورت میں بھی(باوجود فریقین کےبشرط ثمن ایجاب وقبول کرنے کے)تفارق بغیرثمن معلوم ومتحقق اورثابت ہے اوریہ دوحیثیت سے
اول:یہ کہ بائع نےاپنےمکان کی ثمن صرف الف مثلا قرادری بلکہ اس کےساتھ مشتری پر یہ شرط لگاکرکہ تم اپناغلام الف میں مثلا میرے ہاتھ فروخت کرو اپنےمکان کی ثمن دوچیزوں کامجموعہ قراددیادیا ایک الف۔اوردوسری مشتری کااپنےغلام کوالف میں بائع کےہاتں فروخت کرناظاہر ہےکہ غلام فروخت کرنےکی شرط کاایفاء مشتری کےذمہ لازم نہیں ہے۔اس طرح ثمن کاایک حصہ ثمن کایعنی الف چوں کہ بائع صرف اس مقدار راضی نہیں ہوگا بلکہ اورکاطالب ہوگا جوغیر متعین ہےاس لئےثمن غیر معلوم اورمجہول ہوئی ونیز اس صورت میں مثمون کابھی مجہول ہونالازم آتا ہے۔
ملا علی قاری لکھتے ہیں: ، وَلِأَنَّهُ يُؤَدِّي إِلَى جَهَالَةِ الثَّمَنِ لِأَنَّ الْوَفَاءَ بِبَيْعِ الْجَارِيَةِ لَا يَجِبُ، وَقَدْ جَعَلَهُ مِنَ الثَّمَنِ، وَلَيْسَ لَهُ قِيمَةٌ فَهُوَ شَرْطٌ لَا يَلْزَمُ، وَإِذَا لَمْ يَلْزَمْ ذَلِكَ بَطَلَ بَعْضُ الثَّمَنِ فَيَصِيرُ مَا بَقِيَ مِنَ الْمَبْلَغِ فِي مُقَابَلَةِ الثَّانِي مَجْهُولًا. (رَوَاهُ مَالِكٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
وقال الخطابى: فهذا أيضاً فاسد لأنه جعل ثمن العبد عشرين ديناراً وشرط عليه أن يبيعه جاريته بعشرة دنانير، وذلك لا يلزمه وإذا لم يلزمه سقط بعض الثمن وإذا سقط بعضه صار الباقي مجهولا.(معالم السنن 87/5)
وقال ابن قدامة: وَلِأَنَّ الْعَقْدَ لَا يَجِبُ بِالشَّرْطِ لِكَوْنِهِ لَا يَثْبُتُ فِي الذِّمَّةِ فَيَسْقُطُ فَيُفْسِدُ الْعَقْدَ لِأَنَّ الْبَائِعَ لَمْ يَرْضَ بِهِ إلَّا بِذَلِكَ الشَّرْطِ فَإِذَا فَاتَ فَاتَ الرِّضَا بِهِ،انتهى(المغنى 333/2)
اس دوسری تفسیر کے مطابق دوسری حیثیت سےجہاں ثمن یوں محقق ہےکہ :اگربائع اورمشتری الگ الگ معاملہ کرتے اپنے اپنے مبیع یعنی:مکان اورغلام لونڈی یالونڈی کااورایک ساتھ بطریق مذکورہ مبیع نہ کرتے تویقینا بائع اپنے مکان کوصرف ایک الف میں اسی طرح مشتری اپنی لونڈی یا غلام کومحض ایک الف میں فروخت نہیں کرتا بلکہ اس کہیں ریادہ قیمت وصول کرتاجوغیرمعلوم ہے صورت اجتماع میں اصل قیمت سےکم پردونوں راضی ہوگئےہیں محض اس لئے کہ بائع مکان کوعمدہ غلام کم قیمت پر مل رہا ہےاورمشتری کواچھا مکان کم داموں مل رہا ہے۔اس طرح بائع کوغلام یالونڈی کانفس الامردام (ثمن)اورمشتری کومکان کی واقعی قیمت معلوم نہیں ہوئی مجہول رہی۔
ابن رشدبدایہ153/2میں لکھتےہیں:
فَنَصَّ الشَّافِعِيُّ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ، لِأَنَّ الثَّمَنَ فِي كِلَيْهِمَا يَكُونُ مَجْهُولًا، لِأَنَّهُ لَوْ أَفْرَدَ الْمَبِيعَيْنِ لَمْ يَتَّفِقَا فِي كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى الثَّمَنِ الَّذِي اتَّفَقَا عَلَيْهِ فِي الْمَبِيعَيْنِ فِي عَقْدٍ وَاحِدٍ. وَأَصْلُ الشَّافِعِيِّ فِي رَدِّ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ إِنَّمَا هُوَ جَهْلُ الثَّمَنِ، أَوِ الْمَثْمُونِ.انتهى
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب