سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) بیع سلم کا جواز

  • 17470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1685

سوال

(144) بیع سلم کا جواز

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارےملک میں بیع سلم کارواج اس طرح ہےکہ:ایک شخص ماہ اساڑھ یاساون میں غریب ضرورت مند کوپہلے روپے دیتا ہے اس شرط پرکہ25یا27یا32سیر فی مکئی کاغلہ بھادوں  ماں منگر میں لے گا اوریہاں عام طور پر ماہ منگر میں عرصہ سے فی روپیہ 16سیر غلہ مکئی کابھاؤ ہوتا ہےاورجیٹھ میں اس کابھاؤ چار پانچ روپے من ہوتا ہے۔اس سال اس علاقہ پونچھ میں مکئی کابھاؤ ماہ منگر میں ہی پانچ روپئے من ہے بیع سلم کرنےوالوں نےغریب ضرورت مندوں سےفی روپیہ 25سیرمکئی وصول کیا ہےجس سے غریب دینےوالے ناراض ہیں کہ بیع سلم خوب ہوئی کہ ایک روپیہ کےتین روپے دینے پڑے رہے ہیں۔اگر سودی سوروپے ہوتے توزیادہ سےزیادہ ایک روپیہ کےبجائے سواروپیہ دینا پڑتا۔بیع سلم نام رکھ کرتین گنا وصول کیاجاتاہےکیا ایسی بیع سلم جائز ہے؟نیز بیع سلم کون سے شرائط ؟اوربیع سلم کس حدتک جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیع سلم میں ان امور کی پابندی اوررعایت ضروری ہے:

(1)  مسلم فیہ(مبیع)کی تعیین اورتوصیف۔یعنی:اوصاف کاضبط وتعین جن کےاختلاف سے ثمن پراثرپڑے۔

(2)  مسلم فیہ کی مقدار کی تعیین وزن کےاعتبار سے(اگرموزون ہے)یاپیمانہ کےاعتبار سے(اگروہ گیلی ہے)یاگنتی وشمار سے(اگروہ عددی ہے)

(3)  مبیع کی حوالگی کےوقت یعنی:مہینے اورتاریخ کی تعیین۔

(4)  مجلس بیع میں ثمن (راس المال)کامسلم الیہ(بائع) کےحوالہ کردینا۔

(5)  حوالگی کےمقررمہینے اورتاریخ میں مبیع عام طور پرملتا ہو۔

(6)  حوالگی کی جگہ اورمقام کی تعیین اگر مبیع کاحمل ونقل محتاج اخراجات ہوایسی حدیث یااثریافقہی قول میری نظر سےنہیں گزرا جس سےیہ معلوم ہوکہ مبیع کی حوالگی کےمقررہ وقت میں بازار یاقصبہ یاگاؤں کےاندرعام طور پرمبیع کاجونرخ ہے اورمسلم یعنی:بائع اوررب السلم مسلم الیہ :مشتری کےدرمیان جونرخ طے ہواہے۔ان دونوں نرخوں میں کس قدر تفاوت ہوتوبیع سلم جائز ہوگی اورکس قدر تفاوت ہوتوناجائز ومکروہ ہوگی۔

شریعت نےبظاہر اس امر کومسلم الیہ(بائع) کےاختیار تمیزی ومصلحت بینی پرچھوڑ دیا ہےکہ نفع اورنقصان دیکھ کراورسمجھ کرکسی سےبیع سلم کامعاملہ کرے۔کیوں کہ کوئی شخص اس کومعاملہ پرمجبور نہیں کرسکتا۔آں حضرتﷺنےبیع سلم میں باوجود ایک گونہ غرر پائے جانےاس کومحض اس لئےجائز رکھا ہےکہ مسلم الیہ اپنی ضروریات پوری کرسکے اوررب السلم کوبسبہ ارزاں نرخ پر غلہ حاصل ہوجائے گا۔

ابن قدامہ لکھتے ہیں:

أَنَّ السَّلَمَ جَائِزٌ، وَلِأَنَّ الْمُثَمَّنَ فِي الْبَيْعِ أَحَدُ عِوَضَيْ الْعَقْدِ، فَجَازَ أَنْ يَثْبُتَ فِي الذِّمَّةِ، كَالثَّمَنِ، وَلِأَنَّ بِالنَّاسِ حَاجَةً إلَيْهِ؛ لِأَنَّ أَرْبَابَ الزُّرُوعِ وَالثِّمَارِ وَالتِّجَارَاتِ يَحْتَاجُونَ إلَى النَّفَقَةِ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَعَلَيْهَا؛ لِتَكْمُلَ، وَقَدْ تُعْوِزُهُمْ النَّفَقَةُ، فَجَوَّزَ لَهُمْ السَّلَمَ؛ لِيَرْتَفِقُوا، وَيَرْتَفِقُ الْمُسْلِمُ بِالِاسْتِرْخَاصِ.(385/6)

ليكن شريعت کےعام مصالح ونظام کالحاظ رکھتے ہوئے سوال میں درج شدہ صورت یعنی :نرخوں میں دوگونہ اورسہ گونہ تفاوت وفرق والی بیع سلم جیساکہ اب رائج ہوگئی بلاشبہ ممنوع ومکروع ہے۔کیوں کہ اس طرح ضروت مندوں کی ضرورت وبے بسی ومجبوری سےفائدہ اٹھاکران کاخون چوسا جاتا ہےجوپوری یہودیت اوربنیاپن ہے۔حکومت کافرہ محاصل سےکسانوں کی کمرتوڑی رہی ہے۔اوریہ ساہوکارہا سہاخون بھی چوس لیتے ہیں۔وسعت رکھنےوالے مسلمانوں کوایسی بیع سےپرہیز کرناچاہئے۔

حضرت علی ﷜فرماتے ہیں:

قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، - أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ ابْنُ عِيسَى: هَكَذَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ - قَالَ: سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ} [البقرة: 237] وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ «وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَبَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ(ابوداود)

قال الشيخ بيع المضطر يكون من وجهين أحدهما أن يضطر إلى العقد من طريق الإكراه عليه فهذا فاسد لا ينعقد. والوجه الاخر أن يضطر إلى البيع لدين يركبه أو مؤنة ترهقه فيبيع ما في يده بالوكس من أجل الضرورة فهذا سبيله في حق الدين والمروءة أن لا يبايع على هذا الوجه وأن لا يفتات عليه بمثله ولكن يعان ويقرض ويستمهل له إلى الميسرة حتى يكون له في ذلك بلاغ فإن عقد البيع مع الضرورة على هذا الوجه جاز في الحكم ولم يفسخ. وفي إسناد الحديث رجل مجهول لا ندري من هو، إلاّ أن عامة أهل العلم قد كرهوا البيع على هذا الوجه.(معالم السنن:47/5)

مسلمان کےلئےسود لینا اوردینادونوں حرام ہیں۔خواہ تھوڑاہویا زیادہ ۔ارشاد ہے: لعن الله آكل الربواومؤكله الحدیث  اورارشاد ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(البقره:257)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب البیوع

صفحہ نمبر 318

محدث فتویٰ

تبصرے