سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) عند الشرع اولاد کا حقدار کون ہے ماں یا باپ؟

  • 17468
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1003

سوال

(142) عند الشرع اولاد کا حقدار کون ہے ماں یا باپ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خالد جواپنی ماں سےنہایت مانوس ہے۔کیا اس کوزید بالجبر اس کی ماں سےچھین سکتا ہے؟اورہندہ مذکورہ اپنےلڑکےکےمتعلق عندالشرع کوئی حق نہیں رکھتی ہےیعنی لڑکاصرف باپ کاہوتاہےماں کانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زید خالد کو بجر(زبردستی)اس کی ماں سےنہیں چھین سکتا۔خالد جب تک سن تمیز یعنی سات:برس کی عمر کو نہ پہونچے اس کی پرورش کاحق اس کی ماں ہی کوہے الایہ کہ اس عمر کوپہونچنے سےپہلے ہندہ نکاح کرلے تواس کایہ حق ساقط ہوجائے گا۔سات برس کی عمر کےبعد خالد کواختیار ہوگا کہ ماں کےپاس رہےیاباپ کےیہاں ۔

یہ نہایت جاہلانہ خیال ہےکہ اولاد باپ کی ہوتی ہےاورماں کاکوئی حق نہیں کہ طلاق دیتے ہی باپ چھین لیتا ہے قال الدر البهية وشرحها الروضة الندية(131/2) "الأوْلى بالطفل أمه ما لم تنكح"لحديث عبد الله بن عمرو "أن امرأة قالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال: "أنت أحق به ما لم تنكحي" أخرجه أحمد وأبو داود والبيهقي والحاكم وصححه وقد وقع الإجماع على أن الأم أولى بالطفل من الأب وحكى ابن المنذر الإجماع على أن حقها يبطل بالنكاح (قال): "وبعد بلوغ سن الاستقلال يخير الصبي بين أبيه وأمه"لحديث أبي هريرة عند أحمد وأهل السنن وصححه الترمذي "أن النبي صلى الله عليه وسلم خير غلاما بين أبيه وأمه "وفي لفظ(الى اخر ماقال)۔مصباح

٭ایک خط میں شیخ استفسار کیاگیا تھاکہ طلاق کےبعد میاں بیوی کی تفریق کی صورت میں چوٹے بچے بچیاں ماں باپ میں کس کےپار رہیں گے؟ جب کہ دونوں ہی ان کواپنے پاس رکھنےپر مصر ہوں اوران کی کفالت وحضانت کاکس کوحق پہچتاہے؟ اورکتنی مدت تک؟ اس کےجواب میں آب تحریر فرمایاتھا:

سات برس کی عمر تک چھوٹے بچے اوربچی کی حصانت وپرورش کاحق مطلقہ ماں ہی کوہے الایہ کہ وہ دوسری شادی کرلے یا اس کی اخلاقی حالت اورچال چلن قابل اطمینان نہ ہو۔سات برس کی عمر کےبعد لڑکے کواختیا ردے دیا جائے گاچاہے وہ باپ کےیہاں رہے یاماں کاحق حضانت ساقط ہوجاتا ہےاب باپ ہی کوپرورش کرنے کاحق ہوگااورلڑکی کواختیار نہیں دیا جائے گا۔وهذا عند احمد واما عند ابى حنيفة فالام احق بحضانة الجارية حتي تحيض.

صورت مسؤلہ میں دونوں بچوں کانفقہ ہر حال میں زید ہی کےذمہ ہےیعنی:یہ بچے باپ زید کےیہاں رہیں یا اپنی ماں کی پرورش میں ماں کےساتھ رہیں بہر صورت ان کاپورا خرچ زید کودینا ہوگا اس پر تمام اہل علم کااجماع ہے کمانقف ابن قدام المغنی عن ابن منذر ۔البتہ حنفیہ کےنزدیک لڑکے خرچ باپ کےذمے اس کےبالغ ہونے تک ہے بشرطیکہ وہ کسب قدرت رکھتا ہو۔اور حنابلہ کےنزدیک بالغ ہونےکےبعد بھی ہے۔بشرطیکہ فقیر معسر ہو۔غنی وموسر اوراورلڑکی کاخرچ دونوں کےنزدیک اس کی شادی اوررخصتی تک ہے واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 286

محدث فتویٰ

تبصرے