السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شوہر زید عرصہ بائیس تئیس سال سےمفقود الخبر ہےاورعمر زید 64برس کی ہوئی۔زید نےاب تک ہندہ کےنان نفقہ کی خبر نہیں لی اورہندہ کی اوقات بسری کاکوئی ذریعہ نہیں ہےایسی صورت میں ہندہ نکاح ثانی کرسکتی ہے یانہیں؟۔آیا اورکوئی صورت ہندہ کےاوقات بسری کی ازوئے قوانین شریعت ہوسکتی ہےیانہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہندہ مندرجہ ذیل طریقہ پر زید کےنکاح سےرستگاری اورعلیحدگی حاصل کرنےکےبعد دوسرے شخص سےنکاح کرسکتی ہے۔ہندہ مسلمان حاکم کی عدالت میں مرافعہ کرے اوراگر مسلمان حاکم نہ ہوتو دین دار مسلمانوں کی پنچایت میں اپنامعاملہ پیش کرے۔یہ حاکم یاپنچایت ہندہ کوچار برس چارماہ دس دن یافقط ایک برس انتظار کرنےکاحکم نہ دے بلکہ تحقیق حال کےبعد بلاانتظار ہندہ کوطلاق دے دے یااس کی اجازت دےدے کہ اپنے اوپر آپ طلاق واقع کرلے۔ہندہ کوخود اپنے اوپر طلاق وادر کرنےکی اجازت دنیا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نےبریرہ سے فرمایاتھاکہ:انت املک بنفسک ان شئت اقمت مع زوجک وان شئت فارقیہ یعنی :تجھے اختیار ہےاپنےنفس کا۔خواہ اپنےشوہر کےساتھ رہے یااس سے جدا ہوجائےطلاق کےبعد تین حیض گزار کرنکاح ثانی کرسکےگی۔حاکم یاپنچایت ہندہ کےمرافعہ کےبعد چار برس چار مہینے دس دن فقط ایک برس انتظار کرنےکاحکم اس لیے نہ دےکہ اس کاشوہر بیس برس سے گم ہے اورہندہ نےاتنی لمبی مدت تک اس کاانتظار کرنےکےبعد مجبور ہوکر درخواست دی ہے۔اور دوسری بڑی وجہ یہ ہےکہ زید نےاپنےپیچھے مال نہیں چھوڑا کہ ہندہ گزر بسر کرسکے اورعدم نفقہ بجائے خود تفریق کےلیےکافی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (سورۃ البقرہ:229)یعنی :یاتو بھلے طریقہ سےان کواپنے پاس رکھاجائے یا احسان (نیک برتاؤ) کےساتھ رخصت کردیا جائے اورارشاد ہے: ﴿فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ﴾(الطلاق:6))یعنی:یاتوبھلے طریقہ سے ان کواپنے پاس رکھویابھلے طریقہ سےان سےجدا ہوجاؤ اورارشاد ہے: ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾(سورۃ النساء:19)اپنی بیویوں کےساتھ نیک برتاؤ کرو اورفرمایاگیا:﴿ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾ (سورۃ البقرہ:231)یعنی:محض ستانے کےلیے ان کو نہ روک رکھو ان کی حق تلفی کرنےلگو اورجوایسا کرے گا وہ اپنےنفس پرخود ظلم کرے گا۔یعنی اپنے آپ کوخدا کےعذاب کامستحق بنائے گا اورسنن دارقطنی(298/3)اوربہیقی السنن الکبری(470/7) میں ہے: «وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي الرَّجُلِ لَا يَجِدُ مَا يُنْفِقُ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا» رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ) قال الشكوكانى النيل(135/8) وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ مَنْصُورٍ وَالشَّافِعِيِّ وَعَبْدِ الرَّزَّاقِ " فِي الرَّجُلِ لَا يَجِدُ مَا يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا " قَالَ أَبُو الزِّنَادِ: قُلْت لِسَعِيدٍ: سُنَّةٌ؟ قَالَ: سُنَّةٌ وَهَذَا مُرْسَلٌ قَوِيٌّ وَعَنْ عُمَرَ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ وَعَبْدِ الرَّزَّاقِ وَابْنِ الْمُنْذِرِ " أَنَّهُ كَتَبَ إلَى أُمَرَاءِ الْأَجْنَادِ فِي رِجَالٍ غَابُوا عَنْ نِسَائِهِمْ: إمَّا أَنْ يُنْفِقُوا وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقُوا وَيَبْعَثُوا نَفَقَةَ مَا حَبَسُوا انتهى.
يعنى :آں حضرت ﷺ نےاس شخص کےبارےمیں جوعورت کانان نفقہ نہ دے سکے یہ حکم دیا ہے کہ نکاح فسخ کردیا جائے۔اورحضرت عمر نے اپنےعمال کو ان لوگوں کےبارے میں جواپنی بیویوں کوچھوڑکرغائب تھے یہ لکھا کہ ان لوگٔں سےکہو وہ اپنی بیویوں کانان نفقہ بھیجیں ورنہ طلاق دیں۔یہی مذہب ہےامام شافعی امام مالک امام احمد کااورضرورت کےوقت حنفی مذہب میں دوسرے اماموں کےمذہب پرعمل کرناجائز ہے اورشوہر کی گمشدگی کی تحقیق اوراس کالاپتہ ثابت ہونے کے بعد چاربرس پھر چار مہینے دس عدت وفات یابعض خاص صورتوں میں ایک برس انتظار کرنےکاحکم اس وقت ہےجب مفقود کی بیوی عرصہ دراز تک انتظار کرنےسےپہلے مرافعہ کرے۔ساتھ ہی مفقود نےمدت انتظار (چار برس چار ماہ دس دن) کانفقہ اورخرچ چھوڑا ہو۔اورعورت کےمعصیت (زنا) میں مبتلا ہونےکااندیشہ نہ ہو ورنہ حاکم یاپنچایت بلاانتظار اس کوطلاق دے دے گی۔کمافى شرح الارديرو عبدالباقى والخراشنى وغيرها: أن المفقود إنما يؤجل لامرأته مادامت نفقتها والا طلقت عليه لعدم النفقة وفى مختصر الشيخ خليل مع شرحه : ولزوجه المفقود الرفع للقاضى والوالى وإلافلجماعة المسلمين من صالحى بلدها فيؤجل الحرأربع سنين إن دامت نفقتها فان لم تدم نفقتها فلها التطليق بلاتأخيل(انتهى)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب