السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسماۃ ہند بنت بکر دوسال سے زید سےمنکوحہ ہےجب سےنکاح ہوا ہےاپنی والدہ کےگھر بیٹھی ہےخاوند بالکل نہیں رکھتا۔کہتا ہے میں ہرگز ہرگز نہیں رکھناچاہتا چاردفعہ گھر سےنکال چکا ہےہندہ کاوالد وفات پاچکاہےماں زندہ ہےنان ونفقہ سے تنگ ہے خاوند زید نہ طلاق دیتا ہےنہ رکھتا ہےنیز خاوند زید بڑاشرابی فاسق فاجر علاقہ میں بدنام ہے۔ہندہ اوراس کی ماں دونوں تنگ اورپریشان ہیں۔بنابریں ازروئے شرع ہندہ کواس کےظالم اورفاسق فاجر خاوند سے خلاصی کی کیاصورت ہے؟بینو
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں ہندہ کوایکٹ انفساخ نکاح مسلم 1939کی روسے نکاح کرانےکاحق حاصل ہے پس عدالت کی طرف رجوع کرے انفساخ نکاح کی ڈگری حاصل کرے اوراگر بذریعہ پنچائت نکاح فسخ کرانے میں زید کی طرف سےعدالتی کاروائی کرنے ہندہ اوراس کےاولیاء کوپریشان کرنے کااندیشہ نہ ہوتووہ پنجائت کےذریعہ اپنانکاح فسخ کراسکتی ہےجس کی صورت ذیل میں درج ہے۔
زید پرشرعا فرض ہےکہ وہ ہندہ کواپنےگھر آباد کرے اور نان نفقہ سےاس کی خبر گیری کرے اوراگر آباد کرنانہیں چاہتاتواس کوطلاق دے کراپنے قید نکاح سےآزاد کردے ایسانہیں ہوسکتاکہ نہ اس کوآبادکرے اوراس کےحقوق ادا کرے اورنہ اس کوطلاق دےبلکہ یونہی معلق چھوڑدے توزید سخت گنہگار اورظالم ہےارشاد ہے: کردے فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (سورۃ البقرہ:229) (وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(سورۃ النساء:19) وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ (سورۃ البقرہ:231) اور آں حضرت ﷺفرماتےہیں :لاضرار ولاضرار فى الاسلام
پنچائت کےذریعہ نکاح فسخ کرانے کی صورت جو حنفیہ اورمالکیہ واہل حدیث سب کےنزدیک متفقہ ہے۔
ہندہ مذکورہ اپنامعاملہ جماعت مسلمین کےسامنےپیش کرے اس جماعت مسلمین کوجس میں ہندہ اپنا مقدمہ پیش کرے کم ازکم تین ایسے آدمیوں پر مشتمل ہوناچاہیے جوفاسق نہ ہو دین دار ہوں یعنی:تمام کبیرہ گناہوں سےمجتنب ہوں اور معمولی گناہوں پر مصر نہ ہوں اور اگر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہوتو فوراتوبہ کرلیتے ہوں۔بااثر بارسوخ غیرجانب جار ہوں اور ان میں سے ایک عالم دین بھی ہو اوربدقسمتی سےبااثر لوگ دین دارنہ ہوں تویہ تدبیر کرلی جائےکہ وہ بااثر لوگ چند دین داروں کواختیار دے دیں تاکہ شرعا فیصلہ کی نسبت دین دار جماعت کی طرف ہوبااثر اورسربرآدردہ اشخاص کی شرکت وشمولیت اگرچہ ضروری نہیں مگر ان کےاثر سےکام میں سہولت ہوجاتی ہے۔جس جماعت اورپنجائت کےسامنے یہ مقدمہ پیش ہومعاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کےذریعہ پوری تحقیق کرلے اگر عورت کادعوی ثابت ہوکہ زید باوجود وسعت کےہندہ کواپنے گھر آباد کرکےنان فقہ ونہیں دیتا واورفسق وفجور میں مبتلاہے تووہ زید سےکہے کہ اپنی عورت ہندہ کےحقوق اداکرو اوراس کےساتھ شرعی قاعدہ کےمطابق گزران کرویا طلاق دےدو اوراگر نہ تم اس کےحقوق اداکروگے اورنہ طلاق یاخلع دوگے توہم تفریق کردیں گے۔اس کےبعد بھی یہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے توپنچائت کےلوگ متفقہ طور پر فورا طلاق واقع کردیں اورکہہ دیں کہ ہم نےہندہ کوتیرے نکاح سے الگ کردیا اس صورت میں کسی مدت کےانتظار ومہلت کی ضرورت نہیں قال فى مجموع الدردير مانصه: ان منعها(المتعنت عن الانفاق)نفقه الحال فلها القيا م فان لم يثبت عسره اتفق اوطلق وطلق عليه قال محشيه قوله :والا طلق أى طلق عليه الحاكم من غير تلوم الخ
پنچائت کے طلاق اورتفریق واقع کرنے کےبعد ہندہ عدت کےتین حیض گزار کربذریعہ ولی(بھائی یاچچاوغیرہ) جس سےچاہئے نکاح کرلے ہندوستان میں جن مسلمین (پنچائت) جس کےسپرد اس قسم کامعاملہ اورمقدمہ کیاجائے گا اسلامی حکومت میں قاضی شرعی حکم میں ہوگی جس کےفیصے کاوہی درجہ ہوگا جوقاضی شرعی فیصلہ کےہوتا ہے ۔مالکیہ کایہی مذہب ہے اورحنفیہ کےنزدیک زوجہ متعنت کےبارےمیں حنفیہ کافتوی مالکی مذہب پر ہے۔مکتوب
٭مجیب اول کاجواب صحیح ہےایسی صورت میں فسق وفجور میں بھی زید واقع ہےاورحق زوجیت ونان ونفقہ بھی نہیں دیتا نہ آباد کرتا ہےاورنہ طلاق دیتا ہےاورنہ خلع پر راضی ہوتا ہے۔تواس صورت پر سردار قوم جوشخص ہوبصورت سرپنچ اوردوپنچ ایک شوہر کی جانب سےاورایک عورت کی جانب سے مقرر ہوں جس کی زیارت ہواس کومجرم قرادےکر اگر اصلاح نہ ہوسکے تویہ پنچ نکاح کوفسخ کردیں اورعوزرت کاعدت پوری کرنے پر کسی شخص صالح سےنکاح کردیاجائے اس امر پر اس آیت کریمہ بطور اشارۃ النص کےثبوت ہوتا عبداللہ فرماتےہیں: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا......الايه سورة نساء پارہ پانچ۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، أَنْ يَبْعَثُوا رَجُلًا صَالِحًا مَنْ أَهْلِ الرَّجُلِ، وَرَجُلًا مِثْلَهُ مِنْ أَهْلِ الْمَرْأَةِ، فَيَنْظُرَانِ أَيُّهُمَا الْمُسِيءُ، فَإِنْ كَانَ الرَّجُلُ هُوَ الْمُسِيءُ، حَجَبُوا عَنْهُ امْرَأَتَهُ وَقَصَرُوهُ عَلَى النَّفَقَةِ، وَإِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ هِيَ الْمُسِيئَةُ، قَصَرُوهَا عَلَى زَوْجِهَا وَمَنَعُوهَا النَّفَقَةَ. فَإِنِ اجْتَمَعَ رَأْيُهُمَا عَلَى أَنْ يُفَرَّقَا أَوْ يُجْمَعَا، فَأَمْرُهُمَا جَائِزٌ. فَإِنْ رَأَيَا أَنْ يُجْمَعَا، فَرَضِيَ أَحَدُ الزَّوْجَيْنِ وَكَرِهَ ذَلِكَ الْآخَرُ، ثُمَّ مَاتَ أَحَدُهُمَا، فَإِنَّ الَّذِي رَضِيَ يَرِثُ الَّذِي كَرِهَ وَلَا يَرِثُ الْكَارِهُ الرَّاضِي. (تفسیر ابن کیثر) بہتر ہے حکومت وقت کی طرف رجوع کریں اورحکم فسخ کااجازت نکاح کی حاصل کریں فقط واللہ اعلم وعلمہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب