السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی بیوی کادودھ پی لیا اور اس وجہ سے بیوی کواپنے اوپر حرام جان کرطلاق دے دی پھر ایام عدت میں ایک مولوی کے کہنے سےیا اپنے ہی طور سے جماع کرلیا پس کیا بیوی کادودھ پی لینے سےزید پر اس کی بیوی حرام ہوگئی ؟اورکیا حرام سمجھ کر دی ہوئی طلاق شرعا معتبر ہوگی اگر معتبر ہوگی کیا زید کاعدت کےاندر رجوع کرلینا درست اورصحیح ہوا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زید پر اس یک بیوی حرام نہیں ۔حرمت رضاعت اس وقت ثابت ہوتی ہےجب بچہ مدت رضاعت یعنی :دوبرس کی عمر کےاندر کسی عورت کادودھ پی لے۔دوبر س کی عمر کےبعددودھ پینےسےحرمت نہیں ثابت ہوتی آں حضرتﷺ فرماتے ہیں انما الرضاعة من الجماعة(بخارى) لايحرم من الرضاع إلا مافتق الامعاء فى الثدى(ترمذى) عن ابن عباس قال :لارضاع الاماكان فى الحولين(دارقطنى ) وغيره۔ لیکن شوہر کےلیے احتیاط اس میں ہے کہ بیوی کادودھ نہ پیئے کیوں کہ سلف میں حضرت عائشہ اورامام داود علامہ ابن حزم ظاہری وغیرہ حضرت سالم مولیے ابی حذیفہ کےواقعہ سے استدلال کرتے ہوئے رضاعت کبیر کےقائل ہیں پس ورع واحتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ اس سے قطعی پرہیز کیا جائے۔
صورت مسؤلہ میں زید کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی اس کی اس مسئلہ سےناواقفی ولاعلمی وقوع طلاق سےمانع نہیں ہوگی۔
واماشرط الطلاق على الخصوص فشيئان أحدهما: قيام القيد فى المرأة نكاحا وعدة والثانى: قيام حل محل النكاح حتى لوحرمت بالمصاهرة بعدالدخول بها حتى وجبت العدة فطلقها فى العدة لم يقع لزوال الحل واذا طلقها ثم راجعها يبقى الطلاق وإن كام لايزل الحل والقيد فى الحال (الخ عالكير63/2)
اگر زید نےطلاق رجعی دی تھی تورجوع کرنا درست ہوا اوراگر طلاق بائن دی تھی تورجوع کرنے سے اس کی مطلقہ اس کی زوجیت میں واپس نہیں آئی اوریہ رجوع کرنالغو ہے ۔ہاں اگر یہ مطلقہ راضی ہوتو نکاح جدید کےذریعہ اس کواپنی زوجیت میں لاسکتا ہے
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب