السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز تراویح کا اصل وقت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔ آج کل ہمارے ہاں حفاظ کرام عشاء کے فوراً بعد نماز تراویح پڑھاتے ہیں۔ کیا محمد رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عشاء کے فوراً بعد نماز تراویح پڑھا کرتے تھے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم ہو کہ صلاۃ اللیل ، قیام اللیل ، صلاۃ التہجد اور صلاۃ الوتر ایک ہی نماز کے متعدد نام ہیں اور اسی نماز کو رمضان المبارک میں قیام رمضان ، صلاۃ رمضان اور صلاۃ تراویح کہا جاتا ہے اس نماز کا وقت نماز عشاء سے فراغت سے لے کر صبح صادق تک ہے چنانچہ مشکوٰۃ میں بحوالہ مسلم موجود ہے:
«عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ مَنْ خَافَ اَنْ لاَ يَقُوْمَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوْتِرْ اَوَّلَه وَمَنْ طَمَعَ۔ أَنْ يَقُوْمَ آخِرَه فَلْيُوْتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ فَاِنَّ صَلاَةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُوْدَةٌ وَذٰلِکَ أَفْضَلُ» رواہ مسلم باب الوتر المجلد الاول ص395
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس آدمی کو یہ خوف ہے کہ وہ آخری رات کو اٹھ نہیں سکتا وہ پہلی رات میں وتر پڑھ لے اور جس کو یہ طمع ولالچ ہے کہ وہ آخری رات کو اٹھے گا وہ آخری رات کو اٹھ کر وتر پڑھے بے شک رات کے آخری حصہ کی نماز حاضر کی گئی ہے یہ افضل ہے‘‘
مشکوٰۃ میں اسی صفحہ پر بحوالہ متفق علیہ درج ہے:
«وَعَنْ عَآئِشَةَ قَالَتْ مِنْ کُلِّ اللَّيْلِ اَوْتَرَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ مِنْ اَوَّلِ اللَّيْلِ وَأَوْسَطِه وَآخِرِه ، وَانْتَهٰی وِتْرُه اِلَی السَحَرِ» متفق علیه
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رات کے ہر حصے میں رسول اللہﷺ نے وتر پڑھا۔ رات کے شروع میں، درمیان میں ، آخر میں اور آپ کے وتر کی انتہاء سحری تک تھی‘‘
نیز مشکوٰۃ میں بحوالہ متفق علیہ مذکور ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضی اﷲ عنها قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ يُصَلِّیْ فِيْمَا بَيْنَ اَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلاَةِ الْعِشَائِ اِلَی الْفَجْرِ إِحْدٰی عَشَرَةَ رَکْعَةً يُسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَيْن وَيُوْتِرُ بِوَاحِدَة»(الحدیث) باب صلاۃ اللیل الجلد الاول ص373
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’نبیﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے درمیان سے لے کر فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے ہر دو رکعتوں میں سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے ‘‘
الحدیث‘‘ یاد رہے یہ حدیث اس سیاق کے ساتھ بخاری میں نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب