السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نابالغ بچے کی طرف سے ولی طلاق دے سکتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نابالغ لڑکے کی طرف سےولی کی طلاق نہیں ہوتی آنحضرت ﷺفرماتے ہیں:
انما الطلاق بيد من أخذ بالساق اخرجه ابن ماجه والطبرانى فى الكبير عن ابن عباس رضى الله عنهما
محدث
٭عورت کو طلاق دیناناگزیر ہوجائے تب ہی طلاق دینا چاہیے جس کی بہتر صورت اورشرعی تصریح یہ ہے کہ اس کی پاکی کےزمانے میں جس میں شوہر نےاس سے صحبت نہ کی ہو وہ اس کوطلاق دیدے طلاق کی عدت تین حیض کا آناا ہے۔ تیسرا حیض ختم ہوتے ہی عدت پور ی ہوجاتی ہے ۔عدت کی اندر شوہر کو رجوع کرنےکاحق رہتا ہے۔شوہر نےعدت کےاندر رجوع نہیں کیا اورعدت ختم ہوگئی تو عورت بائن ہوگی۔رجوع کاحق باقی نہیں رہا لیکن یہ بینونت خیفہ ہے ۔عورت راضی ہوتو باقاعدہ نکاح کرکے اوس کواپنی زوجیت میں لاسکتا ہے ۔حلالہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تین طلاق دیناضروری نہیں ہے تین طلاق دینے کی صرف اجازت ہے۔اگر تین طلاق دینا ہوتومسلسل تین طہر (پاکی کےزمانوں میں) ایک طلاق طلاق دی جائے ۔بیک وقت ایک سے زائد دویاتین طلاق دینا حرام اورممنوع ہے۔اس صورت میں صرف ایک رجعی طلاق پڑہے گی بقیہ دولغو اورکالعدم ہوجائیں گی۔ایک ایک طہر میں ایک ایک طلاق دینے کی صورت میں دو طلاق تک رجعت کاحق رہتا ہے۔تیسرے طہر میں تیسری طلاق دینےکےبعد عورت بائین مغلظ ہوجاتی ہے۔ طلاق کامحل نہیں رہتی۔
صورت مسؤلہ میں جب شخص مذکورہ نے دوسرے مہینہ میں دوسری طلاق دینےکے بعد جبکہ اوس کو عدت کےاندر رجوع کرنے کاحق تھا اورتیسرے مہینہ میں تیسری طلاق دینے کی اجازت تھی نہ تودوسری طلاق کےبعد رجوع کرنے کاحق تھااور تیسرے مہینہ میں تیسری طلاق دینےکی اجازت تھی نہ تو دوسرے طالق طےبعد رجوع کیا نہ تیسیری طلاق دی یہاں تک پانچ چھ مہینے گذر گئے تو اب نہیں رجوع کرسکتا ہے کیوں کہ رجوع کاحق عدت کے اندر رہتا ہے اور یہاں عدت ختم ہوگئی ہے اور تیسری طلاق دے سکتا ہے کیوں کہ عدت ختم ہوجانے سے بینونت واقع ہوگئی اور عورت محل طلاق نہیں رہ گئی ۔گویہ بینونت خفیفہ ہے غلیظ نہیں ہے۔عورت راضی ہوت بغیر حلالہ کرائے شوہر سابق اس سے نکاح کرسکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب