سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) لے پالک بچے سے بالغ ہونے کے بعد ماں کا پردہ

  • 17431
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1070

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عمر نےاپنے لڑکے خالد پانچ سال کی عمر میں زید کےسپرد کردیا کہ تم اس کی پرورش اوردیکھ بھال کرو۔زید اوراس کی بیوی ہندہ نےخالد کوبڑی محبت وشفقت سےپالا اوراس کو اپنےیہاں رکھ اپنے بیٹے طر ح پرورش اوردیکھ بھال کرتے رہے۔خالد ان دونوں کواپنا باپ اورماں سمجھتا ہے۔اوروہ دونوں بھی اس کا اپنا بیٹا سمجھتے ہیں۔اب خالد بالغ ہوگیا ہےایسی حالت میں شرعا ہند کواس سے پردہ کرنا ضروری ہےیانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر ہند ہ القواعد من النساء اللاتی لایرجون نکاحا (النور:60)(بوڑھی عورتیں جن کے ماہواری آنےکازمانہ ختم ہوچکا ہےاور بڑھاپے کی وجہ سےنکاح کی خواہش وحاجت نہیں رکھتیں) کےتحت نہیں آتی تواس کوخالد سےپردہ کرناضروری  ہے چھوٹی عمر سے پرورش کرنے اوراس کواپنا بیٹا سمجھنے یا منہ بولا بیٹا بنالینے کی وجہ سےہند اورخالد کےدرمیان شرعا کوئی ایسا تعلق اوررشتہ نہیں پیدا ہوگیا کہ اجنبیت نہ باقی رہےاور ان کانکاح آپس میں حرام اورناجائز ہوجائے اوروہ دونوں نسبی ماں بیٹے کےحکم میں ہوجائیں اورشرعا عورت کوہر اس بالغ مرد سےپردہ کرناچاہئے  جس سےاس کانکاح جائز اورحلال ہومنہ بولا بیٹے بعض خاص قریبی عزیزوں مثلا:دیور بہنوئی چچازاد خالہ زاد بھائی شوہر کےبھانجے اوربھتیجے سوتیلے باپ کےبیٹے (جوپہلے بیوی سےہو)وغیرہ سے پردہ نہ کرنا جاہلی  طریقہ اورشریعت کےمقابلہ میں رسم روواد کی پابندی  اورپیروی ہےجومسلم متبع رسول کے لئے کسی طرح اورکسی حال میں جائز نہیں ۔البتہ اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ عورت کےلئے کسی بالغ مردسے کسی وجہ سےپردہ کرنامشکل اورناممکن ہوجائےاورمرد کوزنانہ مکان میں داخل ہوئے بغیر چارہ نہ ہوتوعورت اس کواپنا دودھ پلادے اب بسبب حصو ل رضاعت پردہ کرنےکی ضرورت نہیں رہے گی۔

كماوقع لسالم مولى ابى حذيفة فانه لم يكن له بد من الدخول على سهلة فقال لها النبى  صلى الله عليه وسلم ارضعيه خمس رضعات وهذا أعدل الاقوال واقوى المسالك فى ذلك وبه تجتمع الاحاديث المختلفة والتفصيل فى النيل فارجع اليه

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 233

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ