سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) نکاح شغار

  • 17430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1626

سوال

(104) نکاح شغار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام کےاندر نکاح شغار جائز ہےیانہیں ؟

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ» وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ (متفق عليه وفى رواية لمسلم:لاشغار فى الاسلام

ان دونوں حدیثوں کی توضیح وتشریح سےممنون فرمائیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث مسؤل عنہ میں کئی مباحث ہیں اورہرایک مبحث تفصیل طلب ہے:

1:شغار کی مذکورہ تفسیر:ان يزوج الرجل ابنته على يزوجه الاخر ابنته وليس بينهما صداق)كے بارے میں علماء کااختلاف ہےکہ یہ نبی ﷺکاکلام ہےیعنی تفسیر مذکورمرفوع ہےیایہ صحابی عبداللہ بن عمر کاکلام اوران کی تفسیر ہےیا ان کےشاگرد حضرت نافع کاکلام ہے؟یاحضرت نافع کےشاگردامام مالک کاقول ہے؟۔ابو الولید الباجی مالکی کاخیال یہ ہے کہ تفسیر مذکورہ حدیث مرفوع کاجزء ہےیعنی: نبی ﷺ کاکلام ہے موقوف نہیں ہے۔اورخطیب کاخیال ہے کہ یہ تفسیر آں حضرت ﷺ کاکلام نہیں ہے بلکہ حدیث کے راوی امام مالک کاکلام ہےاورحافظ کاخیال یہ ہے کہ تفسیر مذکور نافع کاقول ہے اوربعض دوسرے علماء کاخیال یہ ہے کہ تفسیر مذکور صحابی عبداللہ بن عمر کاقول ہے۔ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ تفسیر  مذکور مرفوع ہےیعنی نبی ﷺ کاکلام ہے۔اس کی تائید عبداللہ بن عمر کی حدیث کےعلوہ درج ذیل احادیث سےبھی ہوتی ہے۔جن میں یہ تفسیر حدیث مرفوع کےآخر میں بلافصل مذکور ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ» زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ: " وَالشِّغَارُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: زَوِّجْنِي ابْنَتَكَ وَأُزَوِّجُكَ ابْنَتِي، أَوْ زَوِّجْنِي أُخْتَكَ وَأُزَوِّجُكَ أُخْتِي "،(صحيح مسلم باب تحريم نكاح الشغار وبطلانه 1034/2)

, عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشِّغَارِ " , وَالشِّغَارُ أَنْ يَنْكِحَ هَذِهِ بِهَذِهِ بِغَيْرِ صَدَاقٍ , بَضْعُ هَذِهِ صَدَاقَ هَذِهِ وَيَضَعُ هَذِهِ صَدَاقَ هَذِهِ(اخرجه البيهقى 7/200)من طريق نافع بن يزيد عن ابن جريج عن ابى الزبير عن جابر

عن أَبِي رَيْحَانَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُشَاغَرَةِ وَالْمُشَاغَرَةُ أَنْ يَقُولَ زَوِّجْ هَذَا مِنْ هَذِهِ وَهَذِهِ مِنْ هَذَا بِلَا مَهْرٍ وَأَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخِ فِي كِتَابِ ذكره الحافظ فى الفتح163/9)

عن ابن عباس مرفوعا:لاشغار فى الاسلام والشغار أن تنكح المراتان احداهما بالاخرى بغير صداق (ذكره الهيثمي ايضا وقال :رواه الطبرانى وفيه ابوالصباح عبدالغفور وه مترك)

شغار كی تفسیر کاان روایات کے آخر میں کسی راوی کی طرف نسبت کئے بغیر آنادلیل ہےاس بات کی یہ نبیﷺ کاکلام ہےاورکسی راوی کاکلام نہیں ہے۔

شغار کی یہی تفسیر کتب لغت میں بھی مذکور ہے۔اس لئے اس کےصحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔قرطبی لکھتے ہیں

تفسير الشغار صحيح موافق لما ذكره اهل اللغة فان كان مرفوعا المقصود وإن كان من قول الصحابى فمقبول ايضا لانه اعلم بالمقال واقعد بالحال انتهى

2۔حدیث میں دوسری بحث یہ ہے کہ نکاح شغار سےممانعت کی علت کیا ہے؟اکثرشافعیہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ ممانعت کی علت اشتراک یاتشریک فی البضع ہے لان بضع كل واحد منهما يصير مورد العقد وجعل البضع صداقا مخالف لايراد عقد النكاح

اور قفال کہت ہیں کہ بطلان کی علت تعلیق وتوقیف ہے۔گویا نکاح کرنے والایوں کہتا ہےلاينعقد لك نكاح ابنتى حتى ينعقد لى نكاح ابنتك وقال الخطابى فى معالم السنن(21/3)وكان ابن ابى هريرة يشبهه برجل تزوج امراة واستثنى عضور من اعضائها وهو ممالااختلاف فى فساده وتقرير ذلك انه يزوج وليته ويستثنى بضعها اوبعضها حيث يجعله مهر الاخرى.

اور اكثرلوگون کاخیال یہ ہے کہ نکاح شغار کی ممانعت کی علت خلومن عن المہر یعنی:نفی مہر ہےجیساکہ اکثر روایتوں میں بلاصداق یابلامہر یالیس بینھما صداق کےالفاظ آئےہیں اوربعض لوگں کاخیال یہ ہے کہ ممانعت کی علت ایک نکاح کودوسرے کےساتھ مشروط کرنا ہے۔

اوربعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ممانعت کی علت ان چاروں چیزوں کامجموعہ ہےجب نکاح میں تشریک فی البضع کےساتھ نفی مہر اورتعلیق وتوقیف اورشرطیت یہ سب چیزیں پائیں جائیں تب یہ نکاح شغار ہوگا اورممنوع ہوگا۔پس اگر دونوں نکاح ایک دوسرےکاساتھ مشروط ہوں توان دونوں صورتوں میں ان کےنزدیک یہ نکاح شغار میں داخل نہیں ہوگا۔

اوربعض لوگوں کےنزدیک امور مذکورہ(تشریک فی البضع نفی مہر تعلیق شرط) ان میں ہر ایک نہی کی مستقل علت ہےپس اگر ان میں سے ایک علت بھی پائے جائے گی تویہ نکاح ممنوع ہوگا۔لہذا اگردونوں آدمیوں نےاپنی لڑکی یابہن کاایک دوسرے مالی مہر مقرر کرکےنکاح کیا لیکن دونوں نکاح ایک دوسرے کےساتھ مشروط اوراس پر معلق وموقوف رہے ہوں تویہ بھی نکاح شغار کےاندرداخل ہونے کی بنا پرممنوع ہوگا۔

3۔حدیث میں تیسری بحث یہ ہےکہ نکاح شغار کاحکم کیا ہے؟امام شافعی امام مالک امام احمد کےنزدیک شغار جس کی تفسیر احادیث متقدمہ میں ذکر کی گئی ہےشرعا باطل اورکالعدم ہےاورحنفیہ کہتے ہیں کہ یہ نکاح صحیح ہوگااورمہر مثل واجب ہوگا۔

قال المناوى:يبطل العقد عند الثلاثة للتشريك فى البضع أوللشرط أوللخلو عن المهر اوالتعليق وقال الحنفيه :يصح ويلزم مهر المثل

وقال ابن قدامه: وَلَا تَخْتَلِفُ الرِّوَايَةُ عَنْ أَحْمَدَ، فِي أَنَّ نِكَاحَ الشِّغَارِ فَاسِدٌ. رَوَاهُ عَنْهُ جَمَاعَةٌ. قَالَ أَحْمَدُ: وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُمَا فَرَّقَا فِيهِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ حُكِيَ عَنْ عَطَاءٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، وَمَكْحُولٍ، وَالزُّهْرِيِّ، وَالثَّوْرِيِّ، أَنَّهُ يَصِحُّ، وَتَفْسُدُ التَّسْمِيَةُ، وَيَجِبُ مَهْرُ الْمِثْلِ؛ لِأَنَّ الْفَسَادَ مِنْ قِبَلِ الْمَهْرِ لَا يُوجِبُ فَسَادَ الْعَقْدِ، كَمَا لَوْ تَزَوَّجَ عَلَى خَمْرٍ أَوْ خِنْزِيرٍ، وَهَذَا كَذَلِكَ

وَلَنَا، مَا رَوَى ابْنُ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «نَهَى عَنْ الشِّغَارِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ مِثْلَهُ. أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَرَوَى الْأَثْرَمُ بِإِسْنَادٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «لَا جَلَبَ، وَلَا جَنْبَ، وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ» . وَلِأَنَّهُ جَعَلَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْعَقْدَيْنِ سَلَفًا فِي الْآخَرِ، فَلَمْ يَصِحَّ، كَمَا لَوْ قَالَ: بِعْنِي ثَوْبَك عَلَى أَنَّ أَبِيعَك ثَوْبِي. وَقَوْلُهُمْ: إنَّ فَسَادَهُ مِنْ قِبَلِ التَّسْمِيَةِ. قُلْنَا: لَا بَلْ فَسَادُهُ مِنْ جِهَةِ أَنَّهُ وَقَفَهُ عَلَى شَرْطٍ فَاسِدٍ، أَوْ لِأَنَّهُ شَرَطَ تَمْلِيكَ الْبِضْعِ لِغَيْرِ الزَّوْجِ

اورمدونہ میں ابن القاسم سےمنقول ہے کہ يفسخ قبل البناء وبعد وأن ولدت لاولاد قال :وقال يفسخ على كل حال

اگرنکاح تبادلہ اوربٹہ کی صورت میں ہو جس میں دونوں نکاحوں میں باقاعدہ مالی مہر مقرر ہوتاہے اوربظاہر دونوں نکاحوں کےایک دوسرے کےساتھ مشروط اورمعلق وموقوف ہونے کی تصریح نہیں ہوتی جیساکہ ہندوپاک میں ہوتا رہتا ہےتوایسے نکاح کےحکم میں بھی اختلاف ہےامام احمد﷫ اس کی صحت کے قائل ہیں اور امام شافعی کاقول اس بارے میں مختلف ہےاورمالکیہ کامشہور مذہب یہ ہے کہ نکاح بھی ناجائز ہےابن قدامہ لکھتےہیں:

ان سمو امع ذلك صداقا فالمنصوص عن احمد فيما وقفنا عليه صحته وهو قول الشافعى وقال ابو القاسم الخرقى لايصح حيث قال مختصره :اذارزج وليته على ان يزوجه الاخر فلانكابينهما وان سموا مع ذلك صداقا انتهى (المغنى42/43/44/10)

وَاخْتَلَفَ نَصُّ الشَّافِعِيِّ فِيمَا إِذَا سَمَّى مَعَ ذَلِكَ مَهْرًا فَنَصَّ فِي الْإِمْلَاءِ عَلَى الْبُطْلَانِ وَظَاهِرُ نَصِّهِ فِي الْمُخْتَصَرِ الصِّحَّةُ وَعَلَى ذَلِكَ اقْتَصَرَ فِي النَّقْلِ عَنِ الشَّافِعِيِّ مَنْ يَنْقُلُ الْخِلَافَ مِنْ أَهْلِ الْمَذَاهِبِ انتهى

وقال الباجى: ان كان فيهما ذكرمهر من أن يقول:أزوجك بنتى بمائة على ان تزوجنى بنتك بمائة فالمشهور فى المذاهب انه لايجوز وفى المدونه لاباس بذلك انتهى.

وقال الدردير فى من قال:زوجنى اختك مثلابمائة على ان ازوجك اختى بممائة:هووجه الشغار ويسخ قبل البناء وثبت بعده بالاكثر من المسمى وصداق المثل ولو لم يقع على وجه الشرط بل على وجه المكافاة من غير توقف احدهما على اخرى لجاز وان لم يسم الصداق لواحدة منها فصريح الشغار وفسخ النكاح بدا وفيه بعد البناء صداق المثل قال الدسوقى قوله:وجه الشغار مسمى هذا لانه شغار من وه دون وجه فمن حيث ان سمى لكل منهما صداقا فليس بشغار لعدم خلو العقد من الصداق ومن حيث الشرط شغار وتسمية القسم الثانى صريحا واضح وقدم المصنف وجه الشغار اعتناء برد من اجازه كالامام احمد انتهى

ہمارے نزدیک آج کل کامروجہ نکاح بٹہ یاتبادلہ جس طرفین میں مہر طرفین سےمقرر ہےاوربظاہر دونوں نکاح ایک دوسرے موقوف ومعلق نہیں ہوتے بلکہ علی وجہ الکمافاۃ ہوتے ہیں یہ بھی نکاح شغار کےاندر داخل ہےاس لئے کہ گوبظاہر دونوں نکاح ایک دوسرے کےساتھ لفظوں میں مشروط نہیں ہوتے لیکن منوی ضرور ہوتے ہیں۔ایک انکار کردے تودوسرا بھی اپنی مولیہ کواس کےساتھ بیاہنےسے انکار کردیتا ہے۔علاوہ بریں نکاح بٹہ کی صورت میں آئندہ چل کرجومفاسد رونما ہوتے ہیں ان کاتقاضا بھی یہ ہے کہ نکاح بٹہ سےلوگون کوروکاجائے۔نکاح بٹہ کےعدم جواز کی تائید ابوداود کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کےالفاظ یہ ہے:

أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ، أَنْكَحَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ ابْنَتَهُ، وَأَنْكَحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنَتَهُ وَكَانَا جَعَلَا صَدَاقًا فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى مَرْوَانَ يَأْمُرُهُ بِالتَّفْرِيقِ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ فِي كِتَابِهِ: «هَذَا الشِّغَارُ الَّذِي نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

اس حدیث سےمعلوم ہواکہ نکاح بٹہ جس میں مہر مقرر ہوتاہے وہ بھی نکاح شغار منہی عنہ کامصداق ہے۔

تنبیہ:ابوداود کےتمانسخوں  میں حدیث مذکور میں وکانا جعلا صداقا کےالفاظ ہیں۔لیکن خطابی معالم السنن میں جملہ مذکورہ اس طرح لکھا ہے وکان جعلا صداقا جس کاظاہر مطلب یہ ہوتاہے کہ دونوں نے نفس نکاح ہی کوایک دوسرے  کامہر بنایا تھااگر خطابی کانقل کردہ لفظ محفوظ ہویعنی سنن ابی داود میں جملہ مذکورہ اسی طرح  ہوتوپھر یہ حدیث مروجہ نکاح بٹہ یاتبادلہ کوشامل نہیں ہوگا۔اورتشریک فی البضع یانفی مہر والی تفسیر کےموافق ہوجائے گی۔واللہ اعلم

4۔اس حدیث میں چوتھی بحث یہ ہے کہ شغار لڑکی کےساتھ مخصوص ہےیادوسرے مولیات مثلا بہن بھتیجی وغیرہ کوبھی شامل ہےحافط لکھتے ہیں

ذِكْرُ الْبِنْتِ فِي تَفْسِيرِ الشِّغَارِ مِثَالٌ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى ذِكْرُ الْأُخْتِ قَالَ النَّوَوِيُّ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ غَيْرَ الْبَنَاتِ مِنَ الْأَخَوَاتِ وَبَنَاتِ الْأَخِ وَغَيْرِهِنَّ كالبنات فِي ذَلِك وَالله أعلم وقال الباجی :الشغار فى الاختين كالشغار فى البنتين وهو ظاهر المدونه وقال بعض الناس :ان ذلك يختص بالابنتين البكرين وهما لايعتبر برضاة فى النكاح ويجبر عليه وأما من يعتبر رضاه فلايدخله الشغار وانما هى كالتى تتزوج بغيرصداق انتهى

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 227

محدث فتویٰ

تبصرے