سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101) زنا سے حاملہ عورت کے ساتھ نکاح

  • 17427
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 871

سوال

(101) زنا سے حاملہ عورت کے ساتھ نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہندہ زنا سےحاملہ تھی مگر کسی کومعلوم نہ تھا اس کانکاح زید سےہوگیا ہےنکاح کےتین ماہ بعد اس کو لڑکی تولد ہوئی اورثابت ہواکہ یہ کسی غیر شخص کےنطفہ سےحاملہ تھی۔سوال یہ ہے کہ کیا زید کانکاح ہندہ سےدرست ہے؟اگر زید اپنی منکوحہ کو اپنی زوجیت سے علیحدہ کرناچاہے توکیامہر ادا کرنا پڑے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں نکاح درست نہیں ہوا۔ وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، «أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَلَمَّا أَصَابَهَا وَجَدَهَا حُبْلَى، فَرَفَعَ ذَلِكَ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَجَعَلَ لَهَا الصَّدَاقَ، وَجَلَدَهَا مِائَةً.» رَوَاهُ سَعِيدٌ(المغنی581/9)

قال الخطابی: وفيه حجة إن ثبت الحديث لمن رأى الحمل من الفجور يمنع عقد النكاح وهو قول سفيان الثوري وأبي يوسف وأحمد بن حنبل وإسحاق.

وقال أبو حنيفة ومحمد بن الحسن النكاح جائز وهو قول الشافعي والوطء على مذهبه مكروه ولا عدة عليها في قول أبي يوسف وكذلك عند الشافعي.

قال الشيخ ويشبه أن يكون إنما جعل لها صداق المثل دون المسمى لأن في هذا الحديث من رواية زيد بن نعيم عن ابن المسيب أنه فرق بينهما ولو كان النكاح وقع صحيحاً لم يجب التفريق لأن حدوث الزنا بالمنكوحة لا يفسخ النكاح ولا يوجب للزوج الخيار.(معالم السنن21/21/3)وارجع الى زادالمعاد104/4لابن القيم فانه بسط الكلام فى هذه المسئلة

صورت مسؤلہ میں اگر زید کی ہندہ کےساتھ خلوت صحیہ ہوگئی ہے تو مقرر مہر دینا ہوگا اوراگر خلوت نہیں ہوئی تواس کےذمہ مہر نہیں ہوگا کیوں کہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 223

محدث فتویٰ

تبصرے