سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) بیوی کی والدہ سے زنا کی وجہ سے نکاح کا ٹوٹنا ؟

  • 17426
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1753

سوال

(100) بیوی کی والدہ سے زنا کی وجہ سے نکاح کا ٹوٹنا ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نےایک عورت سےنکاح کیابعدہ عورت کی حقیقی والدہ سےوہ زنا کربیٹھا اب جبکہ عورت مذکورہ منکوحہ سے دخول نہیں کیا۔توکیا دونوں میں سے کسی کونکاح کےاندر کھ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر عورت مذکورہ منکوحہ دخول کرچکا ہے تواس صورت میں اپنی ساس سےزنا کرنا کےبعد عورت منکوحہ مذکورہ کو حلال سمجھ کر رکھ سکتا ہے یاوہ اس حرام  ہوجائےگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عندالحنفیہ چوں کہ زنا اور حرامکاری سےحرمت مصاہرت ثابت  ہوجاتی ہے اس لئے اس کی منکوحہ اس پر حرام ہوگئی اوروہ اپنی ساس سے نکاح نہیں کرسکتا۔ساس سےتو اس لئے نکاح نہیں کرسکتا کہ وہ منکوحہ کی ماں ہے اور قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ (سورۃ النساء:123)

اور بیوی منکوحہ اس لئے حرام ہوگئی کہ وہ اس کی موطوہ کی بیٹی ہے یعنی :اب وہ اس کی ربیبہ ہوگئی اور قرآن میں ارشاد ہے: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ (سورۃ النساء:23)اور امام شافعی ومالک کےنزدیک حرمت مصاہرت صرف نکاح یاشبہ نکاح سےثابت ہوتی ہے اورزنا سےنہیں ثابت ہوتی پس حرام (زنا) سے حلال  چیز حرام نہیں ہوگی۔ امام مالک فرماتے ہیں: (فَأَمَّا الزِّنَى فَإِنَّهُ لَا يُحَرِّمُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ) الْمَذْكُورِ فَإِنْ كَانَ مُتَزَوِّجًا بِالْبِنْتِ فَزَنَى بِالْأُمِّ أَوْ عَكْسُهُ لَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ زَوْجَتُهُ لِأَنَّ الْحَرَامَ لَا يُحَرِّمُ الْحَلَالَ.

وَقَدْ رَوَى الدَّارَقُطْنِيُّ عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ رَفَعَاهُ: " «لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ» " لَكِنَّهُمَا ضَعِيفَا السَّنَدِ إِلَّا أَنَّهُ يُسْتَأْنَسُ بِهِمَا (لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: وَ) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ (أُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ فَإِنَّمَا حَرَّمَ مَا كَانَ تَزْوِيجًا وَلَمْ يَذْكُرْ تَحْرِيمَ الزِّنَى) وَالنِّكَاحُ شَرْعًا إِنَّمَا يُطْلَقُ عَلَى وَطْءِ الْمَعْقُودِ عَلَيْهَا، لَا عَلَى مُجَرَّدِ الْوَطْءِ.

(فَكُلُّ تَزْوِيجٍ كَانَ عَلَى وَجْهِ الْحَلَالِ يُصِيبُ صَاحِبُهُ امْرَأَتَهُ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ التَّزْوِيجِ الْحَلَالِ) فَيَقَعُ بِهِ التَّحْرِيمُ، وَكُلُّ مَا كَانَ مَحْضَ زِنًى لَا يُحَرِّمُ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَنْزِلَةِ التَّزْوِيجِ (کذا وشرحہ للزرقانی کتاب النکاح  بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنْ نِكَاحِ الرَّجُلِ أُمَّ امْرَأَتِهِ.ص362(2)شرح الزرقانی141/3)

ہمار ے نزدیک صحیح دوسرا قول ہے: اخرج البیہقی السنن الکبری عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُتْبِعُ الْمَرْأَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ ابْنَتَهَا، أَوْ يُتْبِعُ الِابْنَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ أُمَّهَا؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ، إِنَّمَا يُحَرِّمُ مَا كَانَ بِنِكَاحٍ حَلَالٍ (محلے شرح موطا) پس صورت مسؤلہ میں ساس سےزنا کرنے والے پر اس کی منکوحہ حرام نہیں ہوئی وہ بدستور سابق بیوی بنا کر رکھ سکتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 222

محدث فتویٰ

تبصرے