سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) سوتیلی ماں کی لڑکی سے نکاح

  • 17421
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1827

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید کےماموں خالد نےزید کی سوتیلی ماں زینب کادودھ پیا ہےاب خالد کی لڑکی فاطمہ کانکاح زید کےساتھ درست ہوسکتا ہے یانہیں؟

مستفتی اس سلسلے میں تمام مذاہب فقہی کےاحکام معلوم کرناچاہتا ہے۔جہاں تک میں نےمطالعہ کیا ہے اس سےیہی معلوم ہوسکاکہ اس کانکاح میں کوئی قباحت نہیں غالبا حنفیہ اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرواقعہ کےبیان کرنے میں غلطی نہیں ہوئی ہےاورصورت مرقومہ واقعہ کےمطابق ہےتوفاطمہ کانکاح زید سےدرست نہیں ہوسکتا۔یہ نکاح باتفاق ائمہ اربعہ وجمہور محدثین وفقہاناجائز ہے۔زید کاماموں  اس کاسوتیلا رضاعی بھائی ہےاورخالد  کی لڑکی فاطوہ زید کی سوتیلی رضاعی بھتیجی ہےیایہ کہاجائے کہ زید فاطمہ کاسوتیلا رضاعی چچاہےاورجس طرح اپنے سوتیلے نسبی بھائی یابہن اورسوتیلے نسبی بھتیجے یا بھتیجی بھانجےبھانجی سےنکاح ناجائز ہے۔لقول تعالی:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

اسی طرح اپنےسوتیلے رضاعی بھائی یابہن اورسوتیلے رضاعی بھتیجے بھانجے یابھانجی سےبھی ناجائز ہے۔

رضاعت سےجس طرح مرضعہ اوررضعیہ کےدرمیان حرمت ثابت ہوتی ہےکہ مرضعہ کےاصول رضیع کےفروع مرضعہ کےفروع ہوجاتے ہیں ٹھیک اسی طرح مرضعہ کےشوہر(جس کےحمل کی وجہ سےمرضعہ میں یہ دودھ پیدا ہوا) اور اس رضیع کے درمیان بھی حرمت متحقق ہوتی ہے کہ اس رضاعی باپ کےاصول رضیع کےاصول ہوجاتے ہیں اوراس رضیع کے تمام  فروع رضاعی باپ کےفروع ہوجاتے ہیں۔اورمرضعہ اور اس کےشوہر کےبیٹے بیٹیاں(خواہ اس مرضعہ کے بطن سےپیدا ہوئےہوں یا دوسری بیوی سے) اس رضاعی باپ کی اولاد رضیع کےسوتیلے رضاعی بھائی بہن کہے جائیں گے اس قاعدہ کی روسےخالد زید کی باپ اوراس کی سوتیلی ماں زینب کارضاعی بیٹا ہو اورخود زید کاوہ سوتیلا رضاعی بھائی ہو اورفاطمہ زید کی سوتیلی رضاعی بھتیجی ۔

 فرض کیجئے اگر خالد زید کاماموں نہ ہوتا بلکہ اجنبی ہوتا اوربجائے لڑکے کےلڑکی خالدہ نام کی ہوتی اوراس خالدہ نےزید کی سوتیلی ماں زینب کادودھ پیا ہوتاتو بلاشبہ یہ خالدہ زید کی رضاعی سوتیلی بہن  ہوتی اوراس کانکاح زید سےدرست  نہیں ہوتا ﴿وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ﴾ (النساء:23) کیونکہ  اخت رضاعیہ کی تین صورتیں ہیں:

(1)دو اجنبی لڑکے اورلرکی کسی اجنبی عورت کادودھ پیئں۔

(2)ان دونوں میں سے ایک دوسرے کی نسبی ماں کادودھ پئے۔

(3)یادوسرے کی سوتیلی ماں کادوھ پئے۔

ہرایک صورت پر اخت رضاعیہ صادق ہے۔اورصورت مفروضہ میں خالد اورزید تیسری قسم میں داخل ہیں کہ خالدہ نےزید کی سوتیلی ماں زینب  کادودھ پیا ہےلہذا خالدہ کانکاح زید سےدرست نہیں ہوگا اورنہ ہی خالدہ کی لڑکی فاطمہ سےاس کانکاح درست ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ زید کی سوتیلی ماں کی رضاعی پوتی ہوتی ہے اورزید کی سوتیلی بہن کی بیٹی  یعنی:زید کی سوتیلی بھانجی۔

صورت مسؤلہ میں چونکہ فاطمہ زید کی سوتیلی رضاعی بھتیجی ہےاورزید اس کاسوتیلا رضاعی چچا۔اس لئےفاطمہ  کانکاح زید سےدرست نہیں ہوسکتا۔

قال ابن قدامة فى المغني(520/9) في شرح الخرقى: مَسْأَلَةٌ: قَالَ: (وَلَبَنُ الْفَحْلِ مُحَرِّمٌ) مَعْنَاهُ أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا أَرْضَعَتْ طِفْلًا بِلَبَنٍ ثَابَ مِنْ وَطْءِ رَجُلٍ حَرُمَ الطِّفْلُ عَلَى الرَّجُلِ وَأَقَارِبِهِ، كَمَا يَحْرُمُ وَلَدُهُ مِنْ النَّسَبِ؛ لِأَنَّ اللَّبَنَ مِنْ الرَّجُلِ كَمَا هُوَ مِنْ الْمَرْأَةِ، فَيَصِيرُ الطِّفْلُ وَلَدًا لِلرَّجُلِ، وَالرَّجُلُ أَبَاهُ، وَأَوْلَادُ الرَّجُلِ إخْوَتَهُ، سَوَاءٌ كَانُوا مِنْ تِلْكَ الْمَرْأَةِ أَوْ مِنْ غَيْرِهَا، وَإِخْوَةُ الرَّجُلِ وَأَخَوَاتُهُ أَعْمَامُ الطِّفْلِ وَعَمَّاتُهُ، وَآبَاؤُهُ وَأُمَّهَاتُهُ أَجْدَادُهُ وَجَدَّاتُهُ. قَالَ أَحْمَدُ لَبَنُ الْفَحْلِ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ امْرَأَتَانِ، فَتُرْضِعَ هَذِهِ صَبِيَّةً وَهَذِهِ صَبِيًّا لَا يُزَوَّجُ هَذَا مِنْ هَذَا وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ لَهُ جَارِيَتَانِ، أَرْضَعَتْ إحْدَاهُمَا جَارِيَةٍ وَالْأُخْرَى غُلَامًا، غُلَامًا، فَقَالَ: لَا، اللِّقَاحُ وَاحِدٌ. قَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا تَفْسِيرُ لَبَنِ الْفَحْلِ. وَمِمَّنْ قَالَ بِتَحْرِيمِهِ عَلِيٌّ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَالْحَسَنُ، وَالشَّعْبِيُّ، وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ، وَمَالِكٌ، وَالثَّوْرِيُّ، وَالْأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ، وَأَبُو عُبَيْدٍ، وَأَبُو ثَوْرٍ، وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ.

قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: وَإِلَيْهِ ذَهَبَ فُقَهَاءُ الْأَمْصَارِ بِالْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَجَمَاعَةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَرَخَّصَ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ وَعَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَالنَّخَعِيُّ، وَأَبُو قِلَابَةَ

وَيُرْوَى ذَلِكَ عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَجَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غَيْرِ مُسَمِّينَ؛ لِأَنَّ الرَّضَاعَ مِنْ الْمَرْأَةِ لَا مِنْ الرَّجُلِ. وَيُرْوَى عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَرْضَعَتْهَا أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، امْرَأَةُ الزُّبَيْرِ قَالَتْ: وَكَانَ الزُّبَيْرُ يَدْخُلُ عَلَيَّ وَأَنَا أَمْتَشِطُ، فَيَأْخُذُ بِقَرْنٍ مِنْ قُرُونِ رَأْسِي، فَيَقُولُ: أَقْبِلِي عَلَيَّ فَحَدِّثِينِي. أَرَاهُ وَالِدًا، وَمَا وَلَدَ فَهُمْ إخْوَتِي، ثُمَّ إنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إلَيَّ يَخْطُبُ أُمَّ كُلْثُومٍ ابْنَتِي، عَلَى حَمْزَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَكَانَ حَمْزَةُ لِلْكَلْبِيَّةِ، فَقُلْت لِرَسُولِهِ: وَهَلْ تَحِلُّ لَهُ وَإِنَّمَا هِيَ ابْنَةُ أُخْتِهِ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إنَّمَا أَرَدْت بِهَذَا الْمَنْعَ لِمَا قِبَلَك، أَمَّا مَا وَلَدَتْ أَسْمَاءُ فَهُمْ إخْوَتُك، وَمَا كَانَ مِنْ غَيْرِ أَسْمَاءَ فَلَيْسُوا لَك بِإِخْوَةٍ، فَأَرْسِلِي فَسَلِي عَنْ هَذَا، فَأَرْسَلَتْ فَسَأَلَتْ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُتَوَافِرُونَ، فَقَالُوا لَهَا: إنَّ الرَّضَاعَةَ مِنْ قِبَلِ الرَّجُلِ لَا تُحَرِّمُ شَيْئًا فَأَنْكَحَتْهَا إيَّاهُ، فَلَمْ تَزَلْ عِنْدَهُ حَتَّى هَلَكَ عَنْهَا. وَلَنَا

مَا رَوَتْ عَائِشَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - «أَنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ بَعْدَمَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَقُلْت: وَاَللَّهِ لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَإِنَّ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقُلْت: يَا رَسُولَ اللَّهِ إنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَتُهُ فَقَالَ ائْذَنِي لَهُ، فَإِنَّهُ عَمُّك، تَرِبَتْ يَمِينُك قَالَ عُرْوَةُ: فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَأْخُذُ بِقَوْلِ: حَرِّمُوا مِنْ الرَّضَاعِ مَا يُحَرَّمُ مِنْ النَّسَبِ» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَهَذَا نَصٌّ قَاطِعٌ فِي مَحَلِّ النِّزَاعِ، فَلَا يُعَوَّلُ عَلَى مَا خَالَفَهُ.

فَأَمَّا حَدِيثُ زَيْنَبَ فَإِنْ صَحَّ فَهُوَ حُجَّةٌ لَنَا، فَإِنَّ الزُّبَيْرَ كَانَ يَعْتَقِدُهَا ابْنَتَهُ وَتَعْتَقِدُهُ أَبَاهَا، وَالظَّاهِرُ أَنَّ هَذَا كَانَ مَشْهُورًا عِنْدَهُمْ، وَقَوْلُهُ مَعَ إقْرَارِ أَهْلِ عَصْرِهِ أَوْلَى مِنْ قَوْلِ ابْنِهِ وَقَوْلِ قَوْمٍ لَا يُعْرَفُونَ.

وذكر ابن قدامة نحو ماتقدم فى317/11ايضا وفيه:وجميع اولاد الرجل الذى انتسب الحمل اليه من الرمضعة ومن غيرها أخوه المرتضع وأخواته الخ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 215

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ