سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنا

  • 17418
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1641

سوال

(92) پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکے کی ماں فوت ہوگئی تواس کی دادی نےاس کودودھ پلایا اور اسی کےدودھ سےاس کی پرورش ہوئی اب اس لڑکے کانکاح اس کی پھوپھی کی لڑکی سےجائز ہےیانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ناجائز ہے۔کیوں کہ صورت مسؤلہ میں لڑکے کی پھوپھی اس کی رضاعی بہن ہوگئی اور لڑکے اورپھوپھی کی لڑکی کےدرمیان  ماموں بھانجی کارشتہ ہوا اور جس طرح اپنے نسبی بھائی یابہن کی لڑکی یعنی نسبی بھتیجی اروبھانجی سےنکاح حرام ہےاس طرح اپنےرضاعی بھائی اوربہن کی لڑکی یعنی:بھانجی سےبھی نکاح کرناحرام ہے۔

عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ؟ لَوْ لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ»(بخاری حدیث:5123)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بِنْتِ حَمْزَةَ: «لاَ تَحِلُّ لِي، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ»(بخاری 2758) وكذا العمات والخالات وبنات الاخ بنات الاخت من الرضاعة اجماعا لقوله صلى الله عليه وسلم :يحرم من الرضاع مايحرم من النسب قاله القاضى ثناء الله الفانى فتى فى التفسير المظهر ي تحت قوله تعالى:وأمهاتكم اللاتى ارضعنكم وأخواتكم من الرضاعة۔محدث

٭رضاعت محرمہ کےبارے میں علماء اہلحدیث مختلف الخیال ہیں اکثریت شافعیہ کےوافق معلوم ہوتی ہے اور بعض علماء نےمالکیہ وحنفیہ کےمسلک کوترجیح دی ہے قرآنی آیات اوراحادیث کااطلاق حنفیہ ومالکیہ کاموید ہے۔مقلد شراح حدیث مفسرین قرآن نےایک دوسرے کی تردید اورتائید میں بڑی لمبی لمبی بحثیں لکھی ہیں۔احتیاط حنفیہ اورمالکیہ کےمسلک میں ہے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 212

محدث فتویٰ

تبصرے