السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوتیلی خالہ سےمیری مراد سوتیلی ماں کی حقیقی بہن تھی دراصل ہمارے یہاں کچھ فاصلہ پر ایک گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا ہےکہ زید کی پہلے بیوی سے ایک لڑکابکر تھا۔اس پہلی بیوی کاانتقال کےبعد زید نےدوسری شادی کی دوسری بیوی کی ایک حقیقی بہن تھی جس کانکاح زید نےاپنے لڑکے بکر سےکردیا۔مولوی.......... صاحب نے انہیں جواز کافتوی دیاتھا؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
باب کی منکوحہ یا موطؤہ کو سوتیلی ماں کہناخالص عجمی اورغیر شرعی اصطلاح ہے قرآن وحدیث میں اس کومنکوحہ الاب کےساتھ تعبیر کیاگیا ہے۔اورمنکوحہ الاب کی بہن کوسوتیلی خالہ کہنا اوربھی غلط ہے۔سوتیلی خالہ شرعا عقلا عرفا ام یعنی:اپنی ماں کی سوتیلی بہن ہی ہوسکتی ہے۔
قرآن نےمحرمات کےسلسلے میں جن عورتوں کو بیان کیا ہے ان میں دوسرا نمبر پر امہات کو رکھا ہے۔ام کی معنی والدہ ہے اور اس سےمراد وہ عورت ہےجومرد کی اصل ہو اورمرد کی فرع اورجزو خواہ بلاواسطہ ہو جیسے :ماں یابلواسطہ جیسے :دادی اورنانی مطلب یہ ہواکہ وہ عورتیں جوتمہاری اصول ہیں اورجن کےتم جزو اورفروع ہوتم پر حرام ہیں
چھٹےنمبر پرحالات کوبیان کیاگیا ہے اور اس سےمراد ام کی بہن ہے خواہ وہ حقیقی ہوتو سگی خالہ یااخیافی ہوتو اخیافی خالہ ہوگی یاسوتیلی ہوتوسوتیلی ہوگی۔
منکوحۃ الاب سےنکاح کرنے(لاتنکحو امانکح ابائکم(النساء) کی رو سےحرام ہےاور یہ امھاتکم کے اندر داخل نہیں ہےاس لئے کہ اس پر ام کامفہوم صادق نہیں ہےباپ کی منکوحہ بیٹے کی اپنی اصل نہیں ہےبلاواسطہ اورنہ بواسطہ پس منکوحہ الاب کی بہن بھی خالاتکم میں داخل نہیں ہوگی کیوں کہ وہ مرد کی اپنی اصل(ماں دادی نانی)کی بہن نہیں ہے لہذا اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا اوراس کوخالاتکم میں داخل سمجھ کرمحرمات میں شمار کرنابلاشبہ غلط ہوگا۔
قرآن نےتین قسم کی عورتوں کوحرام کیا ہے۔
1۔نسبیۃ
2۔صھریۃ
3۔رضاعیہ
اور منکوحہ الاب کی بہن تو محرمات نسبیہ میں داخل ہےنہ صھریہ میں اور نہ رضاعیہ میں۔غرض یہ کہ حرمت کے ان تینوں سببوں میں یہاں کوئی سبب متحقق نہیں ہے پس اس سےنکاح کےجواز میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ﴿وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ﴾(النساء:24)کی روسےبلاشبہ اس سے نکاح کرناجائز ہوگا۔
اپنےباپ کی منکوحہ کی پہلے شوہر سےپیدا شدہ لڑکی جو اس یک فرع اورجزو ہےنکاح کرنابلاشبہ جائز ہےتو اس کی بہن سےجو نہ تو اس کی فرع اورجز ہےاورنہ اصل ہےبلکہ اس کی اصل کی فرع ہےبدرجہ اولی نکاح کرناجائز ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب