سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) نابالغہ کا نکاح اپنی مرضی سے کروانا

  • 17406
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 876

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لڑکی نابالغہ کانکاح اس کی والدہ نے اپنی مرضی سے روپیہ لےکر زید سےکردیا اب لڑکی بالغ ہے۔لڑکی بعدبلوغ نکاح سےناراضگی ظاہر کرتی ہے اورکہتی ہے کہ میں سسرال ہرگز نہیں جاؤں گی۔لڑکی جس وقت شادی ہوئی ہے تاوقت بلوغ شوہر کےگھر نہیں گئی ہے اب اس کاارادہ طلاق لینے کا ہے لیکن شوہر طلاق دینے پر کسی طرح تیار نہیں ہے ۔آیا لڑکی کی قاضی شرعی کی اجازت کےبغیر اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے؟جب کہ ہندوستان میں کوئی قاضی شرعی موجود نہیں۔موجود عدالتیں اس بارے میں کوئی حکم نہیں دے سکتیں ۔کیا لڑکی خودبخود اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے؟ فسخ نکاح میں قاضی شرعی اجازت ضروری ہےیا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسؤلہ میں اس لڑکی کوشرعا اپنا نکاح فسخ کرانے کاحق حاصل ہے۔ وإن زوجهما غير الأب والجد فلكل واحد منهما الخيار إذا بلغ إن شاء اقام على النكاح وإن شاء فسخ " وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله اشتراط فيه القضاء بخلاف خيار االعتق كذا فى في الهداية(297)عن ابن عباس : أن جارية بكرا اتت النبى  صلى الله عليه وسلم فذكرت أن أباها زوجهاوهى كارهة فخيرها النبى صلى الله عليه وسلم-ابوداود نسائي ابن ماجه)

صورت مسؤلہ میں لڑکی کی موجودہ قانون کی روسے بھی اپنا نکاح فسخ کرانے کاحق ہےپس اس کو عدالت کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔موجودہ عدالتیں ایکٹ کی روسےایسا نکاح فسخ کرنےکاحق رکھتی ہیں۔لڑکی خود نکاح نہیں کرسکتی۔ اس کےلئےقضاء قاضی ضروری ہے۔اگر حاکم عدالت مسلمان ہو تو اس کی تفریق اورفسخ معتبر ہوگی اوراگر حاکم غیر مسلم ہوتو اس کی تفریق کےبعد لڑکی کوچاہئے  کہ اپنامعاملہ محلہ یاگاؤں یابرادری کےکم ازکم تین بااثر بارسوخ دیندار آدمیوں کےسامنے شرعی قاضی نہیں ہے۔(دیندار پنج جماعت مسلمین عدول) قاضی شرعی کےقائم مقام ہوں گے۔مگر ان پنچوں کوبچاؤ کی صورت پیدا کرکے اس کام کااقدام کرناچاہئے تاکہ شوہر عدالتی کاروائی کرکے لڑکی اورپنچوں کو پریشان نہ کرسکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 205

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ