کیا شک کی بنا پر وضو دوبارہ کرنا چاہیے۔؟
جب انسان كو ہوا خارج ہونے كا يقين ہو تو اس سے وضوء كرنا واجب ہے، ليكن اگر صرف پيٹ ميں حركت يا ہوا خارج ہونے كا وہم ہو تو اس كى طرف توجہ نہيں كى جائيگى، پيٹ ميں صرف حركت يا ہوا خارج ہونے كا وہم ہونے سے وضوء نہ ٹوٹنے كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:
عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ايك شخص نے شكايت كى كہ اسے نماز ميں كچھ محسوس ہوتا، تو كيا وہ نماز ترك كر دے؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں حتى كہ تم آواز سنو يا ہوا خارج ہونے كى آواز سنو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1915 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 540 )۔
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح ميں ہتے ہيں:
يہ حديث اشياء كو اپنى اصل پر باقى ركھنے كى دليل ہے حتى كہ اس اصل كے خلاف كوئى دليل مل جائے، اور اس پر پيدا ہونے والا شك كوئى ضرر و نقصان نہيں ديگا. اھـ
اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جمہور علماء كرام نے اس حديث پر عمل كيا ہے " اھـ
ان شكوك و شبہات كى طرف توجہ دينے سے وسوسہ پيدا ہوتا ہے اس ليے اس كى طرف توجہ ہى نہيں كرنى چاہيے، صرف ہوا خارج ہونے كے يقين ہونے كى صورت ميں ہى وضوء كرنا واجب ہوگا۔
امام نووى رحمہ اللہ كہتےہيں:
" قولہ صلى اللہ عليہ وسلم : " حتى كہ وہ آواز سنے يا پھر بدبو پائے "
ان كا كہنا ہے: ان دو اشياء ميں سے كسى ايك كا وجود معلوم كر لے مسلمانوں كے اجماع كے مطابق سننا اور سونگنا شرط نہيں. اھـ
يہاں علم سے مراد يقين كرنا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب