السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نکاح میں خطبہ مروجہ کےمسنون ہونے کی کوئی صریح دلیل ہےیانہیں؟مشکوۃحدیث:والتشہد فی الحاجہ الخ میں نکاح کی تصریح نہیں ہےپھر اس خطبہ کےالتزام کی کیاوجہ ہے؟نیز ویقرائک ثلث ایات کہنے کےبعد آیتیں چار کیوں ذکر کی گئی ہیں؟ آیت اول سورۃ: آل عمران کی دوسری نساء اول کی تیسری اورچوتھی احزاب کے آخر کی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بےشک ابوداود ترمذی نسائی ابن ماجہ ابن حبان وغیرہ میں حدیث مذکور ہ کےاندر لفظ نکاح کی تصریح نہیں لیکن علامہ بغوی نے شرح السنہ 50/9میں جوروایت ذکر کی ہے اس میں صراحۃ لفظ نکاح موجود ہے۔
ثانیا:احتمال ہےکہ لفظ حاجتہ سےمراد نکاح ہی ہو کیوں کہ نکاح ہی کےموقع پر اس خطبہ کاپڑھنا خلفا سلف مروج ومعمول ہے۔
ثالثا:سورۃ نساء والی آیت نکاح کےزیادہ مناسب ہے۔کمالایخفی علی االمتامل
رابعا:نکاح کےموقع پر اس خطبہ کو ضروری اورلازم اورشرط سمجھ کر نہیں پڑھاجاتا کیوں کہ نکاح کےوقت ایجاب وقبول سےپہلے خطبہ پڑھنا نکاح کےصحیح ہونے کےلئے شرعا لازم اورشرط نہیں ہے۔كمايدل عليه حديث سهل بن سعد الساعدى عندالشخين وغيرهما فى المرأة التى وهبت أمرنفسهاللنبى عليه السلام ثم أنكحهابرجل فقال :قدزوجتكهابما معك من القرآن وحديث رجل من بنى سليم قال خطبت الى النبى صلى الله عليه وسلم الحديث عندابى داود اما الجهلية والعوام معذورون وليس فعلهم فهم دليلا وحجة على شئى
سورۃ احزاب کی آیت مذکورہ فی الحدیث اگرچہ قرات حفص میں دوشمار کی گئی ہے لیکن مصحف ابن مسعود میں ایک آیت شمار کی گئی ہے جوقولالا سدیدا کی بجائے فوزا عظیما پر ختم ہوئی ہے۔کمايدل عليه رواية الترمذى:وقولوقولا سديدا الايه كمايدل عليه مارواه ابن ابى الدنيا فى كتاب القنوت(بسنده)عن عائشه :ماقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر الاسمعته يقول :ياايها الذين امنو اتقوالله وقولو قولا سديد الاية غريب جدا(تفسير ابن كثير641/3)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب