سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) مرد اگر حق مہر ادا کرنے سے پہلے ہی مر جائے؟

  • 17392
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 809

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اپنی زوجہ مسماۃ ہندکازرمہرکامل اداکرچکا اس ادائے گی کےکئی سال بعد انتقال سےچند ماہ قبل ایک تحریر بایں الفاظ لکھ دی ہےمزید براں بحکم خداد رسول میں اپنی زوجہ کامہرآج تاریخ آٹھ ہزار جس کی نصف چارہزار سکہ رائج الوقت مقرر کیاہے۔وعدہ کرتاہوہوں کہ یہ بھی مثل سابقہ کےاگر اللہ تعالی توفیق دے تو بہت جلد اداکردوں گا۔اگر زندہ مذکورہ کونقد نہ اداکرسکوں تواپنی جائداد مالیتی آٹھ ہزار کی رجسٹری کرادوں گا۔لہذا یہ چند کلمے بطور اقرار نامہ مہر لکھ دئے گئے کہ آئندہ سند رہے اوروقت ضرورت کام آوے اگر اتفاق میں زرمہر کےادا کرنےکےقبل ہی مرجاؤں تومیری منکوحہ اپنےشرعی حصہ کےعلاوہ زرمہر باقی جائداد سےحاصل کرسکتی ہےمیرے ورثا کواس میں دخل نہیں رہےگا۔یہ تحریرازروئے شرع قابل نفاذ  ہےیانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مہرمقررہ عندالعقد کےعلاوہ بالکل جدید مہر مقرر کرنےکی نظیرقرون مشہور بالخیر میں نہیں ملتی۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ زید نے منکوحہ ہندہ کو میراث شرعی سے زیادہ دے کرفائدہ پہنچانے کی غرض سےجس میں دیگر ورثہ کانقصان ہے بجائے ہبہ نامہ یاوصیت نامہ لکھنے کےیہ صورت اختیار کی ہے۔بہرحال یہ تحریر اتفاقا میں زرمہر ادا کرنے کے پہلے مرجاؤں تو میری منکوحہ اپنے شرعی کےعلاوہ زرمہر باقی جائداد سےحاصل کرسکتی ہےمیرے ورثہ کااس میں کوئی دخل نہیں ہوگا کی وجہ سےوصیت کےحکم میں ہے اورچوں کہ وارث کےحق میں دیگر ورثہ کی اجازت کےبغیر وصیت جائز نہیں اس لئے تحریر کانفاذ ان کی اجازت پر موقوف ہوگابشرطیکہ زید کے ترکہ کاثلث اس کامتحمل بھی ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 186

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ