سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) حج افراد میں قربانی نہ کرنا

  • 17385
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 1848

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص زید نےگزشتہ سال حج  افراد کیا لیکن قربانی نہ کرسکا(غفلت یادشواری کےسبب) اب  گھر آنے بعد اسے شدید احساس ہے کہ شاید چار مہینہ کےبعد پھر حجاز سفر پرجائے کتاب وسنت کی روشنی میں بتائیں کہ اس کو کیا کرنے چاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج کی تین صورتوں اورقسموں(1۔حج افراد2۔حج تمتع3۔حج قران) میں دونوں قسموں(تمتع وقرآن) میں دم دینا یعنی:جانور(اونٹ یابھیڑیا بکر یادنبہ) کاذبح کرناضروری ہے ۔اسےدم تمتع یادم قرآن کہاجاتا ہے۔یہ عام اصطلاحی قربانی(اضحیہ) نہیں ہے۔جس کےبارے میں علماء کااختلاف ہےکہ مستطیع پر واجب ہے یاسنت موکدہ۔

حج افراد میں مفرد  پر دم نہیں ہے البتہ اگر اس کواضحیہ یعنی: قربانی کی استطاعت ہوتو قربانی کردے تو اچھاہے لیکن وہاں قربانی کرنےکی بجائے گھر پر قربانی کرنا زیادہ  مناسب ہے کہ اس سے گھر والے اور عزیز واقارت مساکین اورفقراء سب فائدہ اٹھائیں گے۔

زید نے حج افراد کیا ہے اس لئے اس پر دم واجب نہیں تھا۔رہ گئی قربانی (اضحیہ) تواگر گھر والوں نے گھر پر قربانی کردی ہے توزید سےقربانی کاجومطالبہ تھا وہ پورا ہوگا۔زید کوحرم میں خود اپنی طرف سے الگ قربانی نہ کرنے کاذرہ برابر بھی احساس اورفکر نہ ہوناچاہئے۔خدانخواستہ اگر گھر والوں نےغفلت کی وجہہ سے یاسوچ کرزید منیٰ میں قربانی کریں گے۔انہوں نےگھر پر قربانی  نہیں کی تو اس صورت میں اس نقصان کی تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے۔بجر اس کےکہ اللہ تعالیٰ سےاس  کی معافی چاہی جائے۔فقط

عبیداللہ

٭حدیث وفد عبدالقیس میں جود اشکال ہیں  ان کومع جواب کےسامنےرکھنےکےساتھ امور ذیل بھی پیش نظر رہنےچاہیئں:

(1)وفد عبداالقیس کب آیاتھا؟اورایک ہی دفعہ آیاتھا یادوفعہ آیاتھا؟

(2)حج فرض ہونےسےپہلے آیاتھا اس کےبعد آیاتھا؟ اگر بعد میں آیا تھا توروایت میں حج کاذکر کیوں نہیں ہے؟

(3)حج کب فرض ہوا ہے؟

ان تینوں امور میں سےایک بھی متفق علیہ نہیں ہے۔سب ہی  میں علماء کااختلاف ہے۔جن کےنزدیک یہ وفد5ھ میں یا اس سے پہلے یا6ھ میں آیا اورحج6ھ میں یا اس کےبعد فرض ہوا اورجن کےنزدیک یہ وفد 8ھ میں آیا اور حج9ھ میں یا  اس کےبعد فرض ہوا اورجن کےنزدیک یہ وفد 8ھ میں اور حج9ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا۔ان دونوں گروہوں کو اس حدیث میں عدم ذکر حج کی توجیہ اوراعتذار کی ضرورت نہیں ہے اورجولوگ(شافعی وغیرہ) ہجرت کےبعد جلد ہی حج کافرض ہونامانتے ہیں اوروفد کے اس بعد 5ھ یا،ھ میں آنےکےقائل ہیں ان کوبلاشبہ اعتذار کی ضرورت ہے۔چنانچہ حافظ وغیرہ متعدد مختلف تو جیہیں علماء سےنقل کی ہیں اوربعض کی تضعیف بھی کردی ہے۔

حافظ کی بحث سےمعلوم ہوتا ہےکہ ان کےنزدیک راجح یہ ہےکہ یہ وفد 5ھ سےپہلے آیا تھا اورآنے والے سابق الاسلام ہیں اورحج ان کےافادہ کےبعد6ھ میں فرض ہوا ہے اس بنا  پر ان اس حدیث میں عدم ذکر حج کی توجیہ واعتذار کی ضرورت نہیں تھی لیکن ان کامحولہ منقولہ فی المرعاۃ اعتذار دوا مروں پر مبنی ہے:

(1)وفد حج کی فرضیت کےبعد آیاتھا۔

(2) کسی معتبر  روایت میں حج کاذکر نہیں ہے۔بیہقی اور مسند کی محولہ دونوں راوایتیں ان کے سامنے تھیں۔چنانچہ انہوں نےاسی حدیث کی شرح میں بیہقی کی روایت کی سند پر کلام کرکےروایت کوشاذ قراردے کر کالعدم کردیا ہےاورمسند کی روایت میں ذکر حج غیر محفوظ ہونے کی طرف اشارہ کردیا ہے۔

ہمارےنزدیک اس کے غیر محفوظ ہونے کاایک قرینہ یہ بھی ہے کہ تمام روایتوں میں حج کےبجائے زکوۃ کاذکر ہےاورمسند کی صرف اسی روایت میں زکوۃ کے بجائے حج کاذکر آگیا ہے۔مسند احمد کی روایت میںاگر ذکر حج محفوظ مان لیا جائےتو مامورات بجائے چار کے6ہوجاتے ہیں۔

(1)شہادت توحید

(2)صلوۃ

(3)زکوۃ

(4)صوم

(5)حج

(6)اداء خمس

حافظ نےاس اشکال کویوں دفع کیا کہ شہادۃ اوراداخمس مامورات اربعہ موعود کےعلاوہ اور ان سےخارج ہیں۔ ہم نے ان دونوں روایتوں کو کان لم یکن سمجھ کر نظر انداز کردیا ہے اورحج کی فرضیت کو امام شافعی کےخیال کےمطابق ہجرت کےفورا بعد وفد کی وفادہ کا اس کے بعد ہوناراجح سمجھا ہےاس لئے حافظہ کامحولہ اعتذار نقل کرنےپر اکتفا کیا ہے۔مکاتیب

٭آپ نے یہ اچھا کیا کہ عمرہ کااحرام جدہ سےباندھا۔خدا کرے  ہمارے علماء قولا وعملا اس محقق اورصحیح چیزکی لوگوں کوتلقین کرناشروع کردیں۔حجۃ الوداع کےموقع پر بجز حضرت عائشہ﷢ دوسرے صحابی سےعمرہ کرنامنقول نہیں ہے۔نہ حج سےپہلے نہ حج کےبعد ۔اس طرح خلافت راشدہ میں بھی  مروجہ عمروں کی نظیر نہیں ملتی۔لیکن عمرہ کی فضیلت سےمتعلق صحیح قولی احادیث کی روشنی میں اگر ڈیڑھ دوہفتہ کےفصل س تنعیم یاجعرانہ سےعمرہ کااحرام باندھ کر عمر ہ کرلیا جائے تومیرے  نزدیک یہ طریقہ بدعت میں داخل نہ ہوگا۔ڈیڑھ دوہفتہ پر قید اس لئےلگائی گئی ہےکہ ہرمرتبہ حلق پرعمل کرنے کےلئے سر پر بال موجود رہیں۔مکاتیب

عزیزم مولوی عبدالودوصاحب﷫

السلام علیکم

آپ کالفافہ مرقومہ ومرسلہ24ستمبر کی ڈاک سےموصول ہوا جس میں مولانا کی اہلیہ کے دودن گم رہنے کا اوراس حادثہ کاخو ان پر اور مولانا پر جو اثر پڑا اس کاونیز موالانا کی غایت درجہ کمزوری اورکھانے پینے  کی رغبت وخواہش ختم ہوجانے کے بعد مستشفی زاہر میں ان کےداخل کئے جانےاور ان کی اجازت سےہم لوگوں کےنام خطوط لکھنے کاتذکرہ ہے۔

آپ کے اس خط سے ایک دن پہلے جمعہ3ستمبر کو عصر کےبعد مولوی احسان اللہ صاحب مرسلہ ٹیلیگرام مل چکا تھا جس میں مولانا (اقبال رحمانی بونڈھیار)کے31اگست کووفات پانے کی اطلاع دی گئی ہے۔مضمون سن کی دل کاکیا حال ہوا اورتاریخ تحریرعریضہ ہذا کی کیفیت ہے اور اس حادثہ کےکیا اثرات مرتب ہوں گے اورمرحوم کی ضعیف وغریب الوطن بیوہ ونیز وطن میں والد اوربھائی وجملہ رشتہ داران واہل مدرسہ کا کیاحال ہوگا؟یہ سب کچھ سوچ اورتصور کرکے دل ودماغ بے قابو ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کےحال پر رحم فرما کردلوں میں صبر وسہار کی توفیق بخشے اور ہم انبیاء صلحاء اتقیاء کے ارتحال کےواقعات سےسبق وعبرت حاصل کرنےکی سعادت عطافرمائے اورجنت میں مولانا کےدرجات بلند فرمائے ۔مولانا بڑے خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے انہیں حرم مکی میں بلاکر ہمیشہ کےلئے ان کو اپنا مہمان بنالیا یہ مرتبہ تولوگوں کی تمنادعا کےبعد حاصل نہیں ہوتا ۔شاذونادرہی کسی کی یہ تمنا پوری ہوتی ہے۔کاش اس راقم سطور کو بھی کسی بہانہ سےوہاں بلالیا جائے اوروہ وہیں کاہورہے۔میں آپ کواورمولاناا مرحوم کی اہلیہ کو تعزیت کےسلسلہ میں کیا لکھوں جبکہ میں خود تسلی وتعزیت کامحتاج ہورہاہوں۔ویسے ہی اعصاب وبصارت کی کمزوری کی وجہ سے کچھ مزید لکھنے سےقاصر ہورہا ہوں۔ یہ چندسطریں بھی بمشکل تمام لکھ سکاہوں مولانا کی اہلیہ کومیرااوروالدہ عزیز ان مولوی عبدالرحمن وحافظ عبدالعزیز کاسلام پہنچادیں اور ان کی طبیعت کاجیساکہ کچھ حال ہوا اس سےبراہ راست یامولوی عبدالرحمن سلمہ کےذریعہ مطلع کریں۔

مولانا مرحوم نے حج بدل بصورت تمتع کاعمرہ توکرلیا ہے حج باقی رہ گیا ہے اگروہاں کےعلماء میری رائے سےاتفاق کریں تو کسی بستوی طالب علم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کےذریعہ مولانا کےذمہ کا حج بدل کرادیں۔اس طرح مولاناکےحج بدل کےلئے بھیجنے والے کامقصد پورا ہوجائے گا۔گھر میں اہلیہ وخالہ سےبھی ہمارا سلام کہیں اوربچے کو دعا والسلام

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الحج

صفحہ نمبر 171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ