السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص پر کچھ قرض ہے اورسرمایہ اس قدر ہےکہ ادائیگی قرض کےبعد وہ حج بیت اللہ بخوبی کرسکتا ہے۔فرض تجارت کےلین دین کےسلسلہ میں ہے جوہرسال ادا ہوتا رہتا ہے۔ایسا شخص حج کرنے جاوے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سرمایہ اگر صرف تجارتی مال کی شکل میں ہےتو شخص مذکورہ حج فرض نہیں ہےاوراگر تجارتی مال کےعلاوہ اس کےپاس اس قدر نقد موجود ہے جو فرض ادا کرنے کےبعد حج کےتمام مصارف اورااخراجات کےلئےکافی ہوگا تو حج بلاشبہ فرض ہے۔یہ کھلی ہوئی بات ہےکہ ایسے شخص پر حج فرض نہیں ہیں جس کےپاس ذاتی مسکونہ مکان اوراثاث البیت یامزورعۃ زمین یاضروری صنعتی سامان اورآلات کےعلاوہ نقد روپے نہ ہوں۔حالانکہ وہ مکان یازمین یا آلات اتنی قیمت کےہیں جو مصارف حج اور حج سےواپسی تک گھر والوں کے اخراجات کےلئے کافی ہوگی۔ ٹھیک اسی طرح صورت مسؤلہ میں تجارتی مال کے علاوہ بقدر مصارف حج اوراخراجات کے لئے کافی ہوگی۔ٹھیک اسی طرح صورت مسؤلہ میں تجارتی مال کےعلاوہ بقدر مصارف حج اوراخراجات اہل وعیال ونقدی موجود نہیں ہےتو حج فرض نہیں کیونکہ دکان کامال تجارت اس کاذریعہ معاش ہےاور یہ ابو معقل کےپانی پٹانے والے اونٹ کےحکم میں جس کےہوتے ہوئے امام معقل نے ان کےتیسرےاونٹ محبوس فی سبیل اللہ کوحج کےلئےمانگا تھا اورآنحضرت ﷺ نے زراعت والے اونٹ کے بجائے اس تیسرے اونٹ پر حج کےلئے جانے کی اجازت دی تھی۔ پس اگر بقدر مصارف نقدر روپے موجود ہیں توحج فرض ہے ورنہ نہیں۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب