السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہرسال رمضان شریف کی ستائیسویں شب سوئیاں یاکوئی بھی میٹھی چیز کھانا کھلاناکیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بھی محض رسمی اورمن گھڑت چیز ہے۔اور اس سےبعض جگہ تویہ پوری رات کھانے اورپکانے کھلانے گپ شپ اورشورو شغب میں گذر جاتی ہے ان للہ وانا الیہ راجعون فقط
مکتوب
ایک روزہ کاواقعہ ہےکہ میں ایک بزرگ سےملنےگیاتو وہاں پرچہ الہدی دربھنگہ مورخہ16جولائی 1953موجود تھا اٹھاکردیکھنےلگا توص4: پردیکھا کہاستفسارت کےذیل میں سوالات کاجواب دیتے ہوئےایک فاضل نےرویت ہلال کےمتعلق عجیب وغریب علمی تحقیقات پیش کی ہیں پڑھ کرعقل حیران تھی کہ یاالہی جو اپنی ہی سمجھ میں نہ آئے اسےدوسروں کوکیوں کرسمجھانےکی کوشش کی جارہی ہے۔
ایسا معلوم ہوتاکہ فاضل محقق نےکسی اسکولی لڑکےسےلفظ ڈیت لائن سن لیا تھا اورکہیں سےجدید علم ہئیت کالفظ پاگئے اب ان دونوں لفظوں کااستعمال ضروری سمجھ کر علمی تحقیق کےرنگ میں پیش کردیا ورنہ ڈیٹ لائن کواختلاف مطالع سے کیاواسطہ اوردسرے شہر کی رویت کوتسلیم کرنے نہ کوجدید علم ہیئت سےکیاتعلق !فاضل محقق نےحافظ ابن حجر اورعلامہ شوکانی کی تحقیقات ذکر کرنےبعد اپنی علمی تحقیقات مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کی ہیں:
عام طور پر اختلاف مطالع کاذکر کیاجاتا ہےلیکن اس کامفہوم متعین نہیں کیا جاتا۔اختلاف مطالع کامفہوم یہ نہیں کہ کسی ملک کے دوشہر کے طلوب وغروب کےمابین ایک گھنٹہ یاآدھ گھنٹہ کافرق ہو۔ اختلاف مطالع کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ورنہ پھر ایک گاؤں کی رویت اس سے کچھ دوروالے گاؤں کےلئےبھی معتبر نہیں ہوسکتی کیوں کہ زمین کے اپنےمحور پر گردش کرنےکی وجہ سے ہرمقام کے طلوع وغروب میں کچھ دوروالے گاؤں خواہ دونوں میں ایک ہی میل کافاصلہ کیوں نہ ہوں اپنی رویت پر اعتبار کرے گا وھذاباطل جدا۔
پس اختلاف مطالع کامفہوم یہ ہےکہ دونوں ممالک میں اس قدر دوری واقع ہوکہ دونوں کی تاریخ اوردن میں فرق پڑجائےجیساکہ امریکہ اورہندوستان کے مابین ہےکہ دونوں کی تاریخ اورایام میں فرق پرجاتا ہےجس کو دفع کرنےکے لئے موجود زمانہ میں180درجہ طول بلد پر ایک ڈیٹ لائن یاتاریخ بدلنے والا خط فرض کرلیا گیا ہے۔ جب کوئی جہاز مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے اس خط کوپارکرتا ہےتو وہ ایک دفعہ گن لیتا ہےیعنی :اگر دس دسمبر سوموار کویہ خط پار کیا تواگلے دن کوھی دس دسمبر سوموار ہی شمار کرےگا ورنہ پھر تاریخ اوردن میں فرق پڑجائےگا۔اوراگر مغرب کی کی طرف سفرکرتےہوئے اس خط کو پار کرتا ہے وہ ایک دن کواپنے ایام میں حذف کردیتا ہےیعنی: اگر دس دسمبر سوموار کوعبور کیا تواگلا دن 16 دسمبر بدھ شمار کرے گا اس طرح کرنےسےہندوستا ن اورامریکہ کےایام اورتاریخ ایک ہوتے ہیں ورنہ ایک ہرگز نہیں ہوسکتے ۔یہ ہے اختلاف مطالع کا مفہوم ۔
پس اگر اختلاف مطلع کوردیت میں معتبر بھی تسلیم بھی کیا جائےتویہ مطلب ہوگا کہ امریکہ اورہندوستان رویت ایک دوسرے کےلئےمعتبر نہیں ہوسکتی کیوں کہ دونوں کے ایام وتاریخ میں قدرتافرق پیدا ہوتا ہے لہذا ممکن ہےامریکہ میں ایک دن ہلال نظر آئے اورٹھیک اسی دن ہندوستان میں نظر نہی آئے کیوں کہ جس وقت امریکہ طلوع کرے گا اس وقت ہندوستان میں صبح کاوقت ہوگا ظاہر ہےکہ یہ طلوع ہلال کاوقت نہیں ہےاختلاف مطلع کایہ مفہوم ہندوستان کے کسی دوخطہ پرصادق نہیں آتا۔اگر پشاور اورصوبہ سرحد میں29 کاہلال نظر آئے توڈھاکہ اوربہار میں بھی اس دن نظر آسکتا ہے بشرطیکہ بادل وغیرہ مانع نہ ہوں جیساکہ اس رمضان کی مثال سےواضح ہوتا ہے۔
کراچی ریڈیو نےنشر کیاکہ29کاہلال نظر آگیا اورٹھیک یہی 29کاہلال ڈھاکہ اوربہار کےبعض مقام میں بھی نظر آگیا جیساکہ موضع مروع کے ایک عالم شخص نےمجھ بیان کیاکہ مرول میں ہم نےبچشم خو ااروبہتوں نے29 کاچاند دیکھا حالاں کہ یہی چاند اس سے چنڈ میل کےفاصلے پر ہم لوگوں کو نظر نہیں آیا۔
پس اس علمی تحقیق سےثابت ہوگیا کہ ہندوستان کے کسی خطہ کے مابین اختلاف مطلع نہیں ہے کیوں کہ یہاں انتہائی دومشرقی ومغربی خطوں کے مابین ڈیرھ گھنٹہ سےزیادہ کافضل نہیں اور یہ فصل ان دوخطوں کارویت پر قطعا کچھ بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
جولوگ جدید علم ہئیت سےناواقف ہیں اور اختلاف مطلع کامفہوم نہیں سمجھتے وہی لوگ ایک بلد کی رویت دوسرے بلد کے لئے تسلیم نہیں کرتے اور یہ محض جہالت کی وجہ سےہے(فاضل محقق کی تحقیق یہاں ختم ہوجاتی ہے)
اب ناظرین غورفرما ئیں کہ کون سا عقدہ حل ہوگا اور کونسی گتھی سلجھ گئی!چوں کہ رویت ہلال کی بحث ہےلہذا آئیے سب سےپہلے ہم رویت ہلال کی حقیقت اپنےسامنے رکھ لیں پھر اختلاف مطالع سمجھنےکی کوشش کریں تھوڑی دیر کے لئے ناظریں کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہےکہ وہ مندرجات ذیل پر غور خوض فرمائیں:
(1)قدیم علم ہئیت میں بتلایا گیا ہےکہ زمین ساکن ہے۔آسمان اور اس کے ستارے زمیں کےگدر چکر لگاتے ہیں چنانچہ چاندپہلے آسمان میں ہے اورسوج چوتھے آسمان اور نواں آسمان اپنی ذاتی حرکت بھی رکھتا ہے چنانچہ چوتھا آسمان ایک سال مغرب سےمشرق کی طرف ایک چکر لگتا ہےاورپہلا آسمان ایک مہینہ میں مغرب سےمشرق کی طرف ایک چکر لگاتا ہے اورچوں کہ پورے چکر میں360درجے ہوتےہیں جن کوچاند ایک مہینہ میں طے کرتا ہے اس لئے ایک دن میں جاند 12 درجے مغرب سےمشرق کی طرف ہٹ جاتا ہےاورچودہ تاریخ کوجب سورج مغرب میں غروب ہوتاتوچاند مشرق سےطلوع ہوتا ہے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چاند کی روشنی ذاتی نہیں ہےبلکہ سورج کی شعاع سےچاند روشن ہوتا ہے اورچاند کا وہ نصف کرہ جوسورج کےسامنےپڑتا ہے ہمیشہ روشن رہتا ہے اوردوسرا نصف کرہ جوسورج کےسامنےنہیں پڑتا ہمیشہ تاریک رہتا ہےاب چاند کے ماہانہ چکر کی وجہ سےکبھی اس کاپورا روشن حصہ ہمارے سامنےہوتاجیسا کہ چودہویں رات میں اورکبھی اس کاپورا حصہ ہمارے سامنےپڑتا ہے جیساکہ اٹھائیسوین تاریخ کو۔اسی طرح مختلف تاریخوں میں اس روشن حصہ کم وبیش نظر آتا ہے یعنی :جتنا ہی چاند سورج سےزیادہ فاصلہ پر ہوگا اتنا ہی اس کا روشن حصہ ہمیں زیادہ نظر آئےگا چنانچہ چودہویں رات کوچاند سورج سے زیادہ فاصلہ پر یعنی:نصف دور کےفاصلہ پر ہوتاہے تواس کاروشن حصہ پورا نظر آتا ہےاورجب کم فاصلہ پر رہتا ہےتو کم نظر آتا ہےاورجب بالکل قریب آجاتاجیسے اٹھائیسویں تاریخ کوتو بالکل نظر نہیں آتا پھر جب انتیسویں یاتیسویں تاریخ کو اتنے فاصلہ پر ہوجاتا ہے کہ اس روشن حصہ کاکنارہ نظر آنے لگتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ ہلال نظر آیا پھر یہ فاصلہ کسی مہینہ کی انتیس یا تیس کو کم رہتا ہےتوچاند باریک اورنیچا دکھائی دیتا ہے۔اورکسی مہینہ میں یہ فاصلہ زیاد ہوتاہے توچاند موٹا اوراونچا نظر آتا ہے۔
اب یہ جاننا چاہیسے کہ کم ازکم چاند سورج میں کتنا فاصلہ ہوتو ہلال نظر آئے گا اس کےلئے ہم علم الزیجات واتقادیم کی سیر کرتےہیں جو علم ہئیت کی ایک فرع ہے تو معلوم ہوتا کہ علم ہئیت والوں نےرصدگاہوں میں تجربہ کرکے یہ بتلایا ہےکہ کم ازکم یہ فاصلہ دس درجہ سےزائد قریبا ساڑھےدس درجہ ہونا چاہیے چنانچہ دس درجہ کےفاصلے پر چاند نظر نہیں آتا البتہ جب چاند سورج میں ساڑھے دس درجہ کافاصلہ ہوتو ہلال نظر آئے گا۔
اب رویت ہلال کی اس حقیقت کوسامنے رکھ کرہم ہندوستان کےدو شہروں کولیتے ہیں ایک :مشرقی۔دوسرامغربی۔ مثلا :کلکتہ اورممبئی۔ان دونوں کےدرمیان ایک گھنٹہ دومنٹ کافرق ہے یعنی :جب کلکتہ میں آفتاب ہوتاہے تو اس کے ایک گھنٹہ دومنٹ بعدممبئی میں آفتاب ڈوبتا ہےاب کسی مہینہ کی انتیس تاریخ کو کلکتہ میں آفتاب غروب ہونے کےوقت چاند سورج کافاصلہ دس درجہ تو وہاں ہلال نظر نہ آئے گا مگر اسی روز ممبئی میں ایک گھنٹہ دومنٹ کےبعد آفتاب ڈوبے گا اورایک گھنٹہ میں آدھا درجہ کافاصلہ بڑھ جائےگا اس لئےچاند سورج میں ساڑھے دس درجہ کافاصلہ ہوجائے گا اورممبئی میں ہلال نظرآئے گا اس لئے ہندوستان کےدوشہروں میں اختلاف مطالع پایا جاتا ہے۔
اسی طرح ایسے دوشہروں میں بھی اختلاف مطالع پایا جاتا ہےجن کے اوقات میں صرف آدھ گھنٹہ کےبعد یہ فاصلہ حدرویت کوپہنچ جائے اوروہاں ہلال نظر آئے یہ ہےقدیم علم ہیئت ۔جس کی تائید ایک حدی قرآں مجید کےمندرجہ ذیل آیا ت سےبھی ہوتی ہے:
﴿أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا ﴿6﴾ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا ﴿7﴾ وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا ﴿8﴾ وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا ﴿9﴾ وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا ﴿10﴾ وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ﴿11﴾ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ﴿12﴾(سورۃ االنباء) ﴿تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا ﴿61﴾سورۃ الفرقان ﴿وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا﴾ (الانبياء:61) ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿38﴾ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ﴿39﴾ لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿40﴾(سورة يس)
اس طرح کی بہت سی آیات قرآن مجید میں ہیں جن کوطوالت کےخوف سےنقل نہیں کیاگیا۔
اب آئیے ذرا جدید علم ہئیت کی فضا میں بھی چاند دیکھ لیں تاکہ فاضل محقق کوای بات کادکھ نہ ہو کہ ہم نےتو اتنی محنت سےجدید علم ہئیت کالفظ استعمال کیا اور اس کسی نےاس کی قدر نہ کی۔
(2)جدید علم ہئیت میں آسمان کاوجود نہیں یہاں فضا ہی فضا ہے۔ ار اس فضا میں آفتاب وماہتاب اوردوسرے سیارےایک دوسرے سےمتعینہ فاصلہ پر باہمی کشش کی وجہ سےقائم ہیں پھر چوں کہ سورج سب سےبڑاہے اس لئےوہ تو کسی کےگرد نہیں گھومتا البتہ دوسرے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ چنانچہ زمین بھی ایک سیارہ ہےجو سورج کے گرد بیضاوی راستہ پر ایک سال میں ایک چکر لگاتی ہےجس موسم کااختلاف پیدا ہوتا ہے۔ پھر ایک دوسری حرکت بھی کرتی ہےیعنی:اپنے محور پر24گھنٹے میں ایک دفعہ گھوم جاتی ہے جس دن رات پید ہوتے ہیں اورچوں کہ زمین اپنے محور پر مغرب سےمشرق کی طرف گھومتی ہےا س لئے مغرب طر ف جاتا ہوا معلوم ہوتا ہےجیسے آپ ریل گاڑی میں بیٹھےہوں اوریل گاڑی مشرق کی طرف جارہی ہوتو معلوم ہوتا کہ تمام درخت وغیرہ مغرب کی طرف چلے جائے ہیں حالانکہ وہ اپنی کھڑے ہیں۔ریل گاری مشرق کی طرف جاریہ ہے ۔پھر آئیے چاند کودیکھئےتووہ زمین کےگرد ایک مہینہ میں ایک چکر لگاتاہے یعنی :روزانہ 2ردجے طے کرتا ہےاوراس طرح وہ سورج سےدور اورنزدیک ہوتا رہتا ہےبالکل نزدیک ہونے کی صورت میں چاند کاروشن حصہ پورا نظر آتا ہے اسی طرح کم وبیش فاصلہ پر روشن حصہ کم بیش نظر آتا ہےاورکم از کم چاند سورج سےساڑھےدس درجہ فاصلہ پر تو ہلال نظر آتا ہے۔اب قدیم وجدید ہئیت کافرق دیکھئے کہ وہاں آسمان ہےاورسورج زمین کےگرد چکر لگارہا ہے ار یہاں آسمان نہیں ہے اورسورج زمین کےگرد چکر نہیں لگا رہا ہے بلکہ زمین ہی سورج کے گرد چکر لگارہی ہے مگر رویت ہلال کی حقیقت وہی رہی اس میں کچھ فرق نہ پڑا اور اختلاف مطالع بھی اسی طرح ایک ملک کےدوشہروں میں پایا گیا کیوں کہ یہاں بھی ہرگھنٹہ میں سورج سےچاند کافاصلہ آدھا درجہ بڑھتا اورگھٹتا رہتا ہے اس لئےممکن ہےکہ ایک شہر میں چاند حدرویت کو نہ پہنچا ہو لہذا وہاں ہلال نظر نہ آئےاوردوسرےشہر میں جوگھنٹہ یاآدھ گھنٹھ کےفرق پر ہے وہاں چاند حد رویت کوپہنچ جائےاور ہلال نظر آجائے ۔یہ ہےجدید علم ہئیت جس سےناواقفیت کاطعن علماء شریعت کودیاگیا ہے۔
اب آئیے ذرا ڈیٹ لائن کی بھی سیر کرلیں:
(3)تاریح کابدلنا:ہم آپ سےپوچھیں کہ تاریخ کتنی دیر میں بدلتی ہے تواگر آپ کےدماغ میں خلل نہیں ہےتو یقینا یہی کہیں گے کہ 24گھنٹے میں تاریخ بدلتی ہے یعنی :اگر آج مغرب کےوقت کوئی تاریخ شروع تو24 گھنٹے کے بعد کل مغرب ہی کے وقت یہ تاریخ بدلے گی اوردوسری تاریخ شروع ہوگی جیساکہ اسلامی شریعت میں ہے۔اوراگر آج 12بجے دن کوکوئی تاریخ شروع ہوئی تو24گھنٹے کےبعد کل 12بجےرات ہی کویہ تاریخ بدل کردوسری تاریخ شروع ہوگی جیسا کہ لندن والوں کوقرارداد ہےاب ہم طول بلد کوبھی سمجھ لیں تب ڈیٹ لائن پر چلیں ۔کرہ زمین پر قطبین کےدرمیان شمالا جنوبا جوخطوط فرض کئے ہیں وہ خطوط البلد کہلاتے ہیں جیسے :ایک خربوزہ لے لیئے اس پ رفاشول کےدرمیان جوخطوط نصف دائرہ کےی شکل میں ہیں ان کوخطوط طول البلد سمجھئے۔انھیں خطوط طول البد کےدرمیان جوفاصلہ شرقا غربا پایا جاتا ہے اس کوطول البلد کہتے ہیں۔لندن سےگذرنے والاخط طول البلد اس زمانے میں صفر درجہ ماناگیاہے۔چوکہ پورے دائرہ میں360درجے ہوتے ہیں اس لئے نصف دور میں180درجے ہوں گے۔ اب لندن پرپہنچیں گے۔جب آفتاب180درجہ طول بلد پرپہنچتا ہےاس وقت لندن میں رات کا12بجے ہوتا ہےےاسی وقت تمام دنیا میں تاریخ بدل جاتی ہےتاکہ دنیا کےتمام کاروبار اورنظام میں یکسانیت رہے اس لئے180 درجہ طول البلد کوڈیٹ لائن یعنی :خط تاریخ کہتےہیں ورنہ قدرتادنیا کےتمام کاروبار اورنظام میں یکسانیت رہے۔ اس لئے 180 درجہ خط طول البلد کوڈیٹ لائن یعنی :خط تاریخ کہتے ہیں ورنہ قدرتا دنیا کےمختلف حصوں میں مختلف اوقات میں تاریخ بدلتی رہتی ہےے مثلا :جبکہ کلکتہ میں آفتاب غروب ہوا توشرعا وہاں کی تاریخ بدل گئی پھر تین گھنٹہ کےبعد جب کہ مکہ معظمہ میں آفتاب غروب ہوا تو وہاں تاریخ بدل گئی۔اسی طرح12گھنٹے کےبعدامریکہ میں آفتاب غروب ہوا تو وہاں کی تاریخ بدل گئی۔اس طرح کلکتہ کےایک گھنٹہ بعد ممبئی میں تاریخ بدل جاتی ہے۔ اس سےمعلوم ہوا کہ ہندوستان اور امریکہ ہی کےدریمان قدرتا تاریخ میں فرق نہیں پڑتا بلکہ ہندوستان کےمختلف شہروں میں قدرتاتاریخ میں فرق پڑتا رہتاہےےصرف اتنی بات ہےکہ دنیا کےکسی دومقاموں کی قدرتی تاریخ میں ایک گھنٹہ کافرق پڑتا ہےاورکسی دومقاموں میں تین گھنٹہ کا اورکسی مقاموں میں چھ گھنٹے کااورکسی دومقاموں 13گھنٹے کافرق ہوتا ہے چنانچہ ہندوستان اور امریکہ میں چونکہ تاریخ 24 گھنٹے میں بدلتی ہےاس لئےہندو اورامریکہ میں12گھنٹےتک موافقت رہتی ہےلہذا اگر اختلاف مطالع کادارومدار تاریخ کےقدرتی فرق پر ہو تب بھی ہندوستان کےشہروں میں اختلاف مطالع پایا جاتاہے۔
جدید علم ہئیت کی فضا دیکھ لی اورڈیٹ لائن کی سیر بھی ہوچکی اب آئیے ذرا علماء شریعت کی خدمت میں چلیں دیکھیں وہ کیا کہتےہیں!!۔
(4)علماء شریعت نے اسلامی مسائل کےمصالح وحکم پر نظر رکھتے ہوئےبتایاہےکہ اختلاف مطالع کےلئے دومقاموں کےدرمیان کم ازکم اتنا فاصلہ ہوناچاہیے کہ ایک مہینہ کی راہ ہو پید ل چل کر یااونٹ کی سواری سے۔اب دیکھئے کہ اس لحاظ سے بھی ہندوستان کے دوشہروں کےدرمیان اختلاف مطالع پایا جاتاہے۔رہا اختلاف مطالع کا اعتبار اورعدم اعتبار تواس لحاظ سےتین علماء کےتین گروہ ہیں:
ایک گروہ: یہ کہتا ہےکہ اخلاف مطالع کا اعتبار کیاجائےگایعنی: جن مقاموں میں اختلاف مطالع پایا جاتا ہے ان میں اسک دوسرے کی رویت معتبر نہ ہوگی اورجن دومقاموں میں مطالع نہیں پایا جاتا ان میں ایک دوسرے کی رویت معتبر ہوگی۔یہ محققین کامسلک ہے۔
دوسراگروہ: یہ کہتا کہ اختلاف مطالع کااعتبار نہ کیا جائے گا بلکہ ایک مقام کی رویت دوسرے مقام میں معتبر ہوگی خواہ دونوں مقاموں میں کتنا ہی زیادہ فاصلہ ہو عموما فتوی اسی دیاجاتاہے۔
تیسراگروہ :یہ کہتا کہ اختلاف مطالع کااعتبار نہ کیا جائےگا بلکہ ہر شہر میں اسی شہر والوں کی رویت معتبر ہوگی نہ دوسرےشہر کی۔
مندرجہ بالا غو کرنےکےبعد آئیےے ذرا فاضل محقق کی علمی تحقیق پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں۔سب سےپہلے آپ لکھتے ہیں کہ عام طور پر اختلاف مطالع ذکر کیاجاتا ہےلیکن اس کامفہوم متعین نہیں کیاجاتا۔
اب اگر ہئیت وجغرافیہ کےلحاظ سے مفہوم مراد ہے تو علم الافلاک والہیئات میں اس کامفہوم متعین کردیاگیا ہےجیساکہ بیانات بالا سےمعلوم ہوچکا اورکتب ہئیت مثلا :حواشی شرح چغمنبی وغیرہ میں مذکور ہے اسی طرح کتب علم الزیحات والتقادیم مثلا:ریج بہادر خانی وغیرہ میں بھی موجود ہے اوراگر شرعا مفہوم مراد ہےتو علماء شریعت نےبھی اختلاف مطالع کامفہوم متعین کردیا ہے کہ جن دو مقاموں میں ایک مہینہ یااس سے زائد کی راہ میں ہۃ ان میں اختلاف مطالع ہے اور اس سےکم میں نہیں جیساکہ بحرالجواہر اورجامع الرموز وغیرہ کی عبارت شرح مراقی الفلاح کےحوالہ سے مولاناعبدالحئ صاحب نےنقل کی ہے:أقل مايختلف فيه المطالع مسيرة شهر اور ردالمختار میں ہے:قدر البعد الذى تختلف فيه المطالع مسيرة شهر فاكثر(ردالمختار2/105)
اب كہنا کہ اختلاف مطالع کامفہوم متعین نہیں کیاجاتا۔ کیسی علم وتحقیق کی بات ہے۔ پھر آگے بڑے شدومد کےساتھ آپ فرملاتے ہیں کہ اختلاف مطالع کا یہ مفہوم نہیں کہ کسی ملک کےدو شہر کےطلوع وغروب کےمابین ایک گھنٹہ باآدھ گھنٹہ کافرق ہو۔ اختلاف مطلع کہ یہ مطلب ہرگز نہیں ۔ناظرین کو معلوم ہوچکلا ہے کہ قدیم وجدید علم ہئیت اورشریعت میں اختلاف مطالع کایہی مفہوم ہے۔اس کاانکار محض اس لیے کیا گیا ہے کہ لفظ ڈیٹ لائن کسی طرح استعمال کیا جائے چنانچہ آگے چل کر لکھتے ہیں: پس اختلاف کا مفہوم بہ ہے کہ دونوں کی تاریخ اورایام میں فرق پڑجاتا ہےجس کو دفع کرنے کے لئے موجود زمانہ میں 180 درجہ طول بلد پر ایک ڈیٹ لائن یاتاریخ بدلنے والاخط فرض کرلیاگیا ہے۔
ناظرین کومعلوم ہوچکا ہےکہ تاریخ میں فرق کیسے اورکتنا پڑتاہے۔نیز وہ ڈیٹ لائن کی بھی سیر کرچکے ہیں۔ لہذا وہی فیصلہ فرمائیں کہ اختلاف مطالع کوڈیٹ لائن سےکیا واسطہ ہے۔یہ انوکھا اور من گھڑت مفہوم بتلانے کےبعد بڑے جوش وخروش کےساتھ آپ فیصلہ فرماتے ہیں:(یہ ہےاختلاف مطلع کامفہوم)۔آگے چل کر آپ لکھتے ہیں(لہذا ممکن ہے کہ امریکہ میں ایک دن ہلال نظر آئے اورٹھیک اسی دن ہندوستان میں نظر نہ آئے کیوں کہ جس وقت امریکہ ہلال طلوع کرےگا اس وقت ہندوستان میں صبح کاوقت ہوگا۔ظاہر ہے کہ یہ طلوع ہلال وقت نہیں ہے) اس میں دعوی توآپ نےیہ کیا کہ امریکہ اورہندوستا ن کی رویت میں اختلاف ممکن ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں ممکن آپ نے امکان خاص کےمعنی میں استعمال کیا ہے اور دلیل آپ نے وجوب کی پیش کی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ وجوب امکان خاص کافرد نہیں ۔یہ ہے آپ کامبلغ علم جس پر آپ کوبڑا فخر وناز ہےاوربڑے ناز وانداز کےساتھ آپ فرماتے ہیں:(پس اس علمی تحقیق کس درجہ میں ہے اور ہندوستان کےدوخطہ کےمابین اختلاف مطلع نہیں ہے)۔اب ناظرین ہی اس فیصلہ کریں کہ یہ علمی تحقیق کس درجہ میں ہے اورہندوستان کےدوخطہ کے مابین اختلاف مطلع نہیں)۔اب ناظرین ہی اس کا فیصلہ کریں کہ یہ علمی تحقیق کسی درجہ میں ہے اورہندوستان کےدوخطہ کےمابین اختلاف مطلع ہے یا نہیں؟۔پھر جدید علم ہئیت کابھوت اس طرح آپ پر سوار ہےکہ آپ نے مبہوت ہوکر آخر میں یہ لکھ دیاکہ :( جولوگ علم ہئیت سے ناواقف ہیں اوراختلاف مطلع کامفہوم نہیں سمجھتے وہی لوگ ایک بلد کی رویت دوسرے بلد کے لئے تسلین نہیں کرتے اور یہ محض جہالت کی وجہ سے ہے) اللہ اللہ آپ نےوہ لکھ دیا ہےجسے پڑھ کر عقل وہوش نےسرپیٹ لیا اوردین وایمان کانپ اٹھا یعنی :ساڑھے تیرہ سوبرس سےجوعلماء اسلام اس مسلک کےہوئے ہیں وہ سب جاہل تھے۔اوراختلاف مطلع کا مفہوم نہیں سمجھتے تھے۔یہ مسلک تو حضرت عبداللہ بن عباس اوربعض دوسرے صحابہ وتابعین کا بھی ہے۔ اور امام نووی نےایک باب ہی اس عنوان سےباندھ :باب بيان أن لكل بلدرؤيتهم وأنهم إذارأوا الهلال ببلد لايبت حكمه لما بعد عنهم اور اس باب میں وہی کریب والی حدیث لائے ہیں جس میں عبداللہ بن عباس کامسلک مذکور ہے۔ اب دیکھئے آپ نےکس کوجاہل کہا! ایک صحابی رسول حبر الامہ ترجمان القرآن رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس کاوبھ جاہل کہہ دیا۔
سنئے: اختلاف مطالع کے مفہوم میں باہم اختلاف نہیں ہےاس کے حکم میں اختلاف ہے :یہ کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیاجائے؟یا نہ کیا جائے اورعلماء سلف اختلاف مطالع کامفہوم خوب سمجھتے تھے اورسمجھ ہی کر اس کے حکم میں اختلاف کیا ہے یعنی بعض نے اختلاف مطالع کااعتبار کیا اوربعض نےنہ کیا جیساکہ اس لحاظ سےعلماء کاتین گروہ اوپر بیان کیاجاچکا ہے۔اب میں ناظرین سےرخصت ہوا۔
نوٹ: مضمون کوصحیح طور پر سمجھنے کےمندرجہ ذیل نقشوں پر غور کیجئے:
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب