سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) بیس رکعات تراویح پڑھ کر آٹھ کو سنت اور باقی نوافل سمجھنا

  • 17376
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1163

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی حافظ قرآن اہل حدیث بیس رکعات تراویح پڑھاوے اور بیس رکعات کوسنت نبوی سمجھے اوربقیہ رکعات کونوافل خیال کرے تویہ درست ہے یا نہیں؟کیا بیس رکعات تراویح پڑھنا یا پڑھانا بدعت عمری ہے؟حالاں کہ ایک روایت مرفوع ضعیف بروایت  ابن عباس ﷜ بیہقی وطبرانی وابن ابی شیبہ بایں الفاظ ائی ہے: ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يصلى فى رمضان عشرين ركعة سوى الوتر(نصب الرايه2/153)ونیز بیس رکعات تراویح پر تعامل صحابہ وتابعین بھی ہے:عن السائب بن يزيد قال : كنانقوم فى زمن عمر بن الخاب بعشرين ركعة والوتررواه البيهقى فى المعرفة قال النووى فى الخلاصة:اسناد صحيح(نصب الرايه2/154)

اور مولوى عبدالحق لکھنوی حنفی عمدۃ الرعایہ 1/233میں لکھتے ہیں:

نعم ثبت اهتمام الصحابة على عشرين فى عهد عمرو عثمان وعلى فمن بعدهم أخرجه مالك وابن سعد والبيهقى وغيرهم وما واظبت عليه الخلفاءفعلا وتشريعا ايضا سنة بحديث عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشديه أخرجه أبوداود

اور مقلدين اربعہ حرمین شریفین کابھی اس پر عمل ہے۔پس دریافت طلب امر یہ ہے کہ بیس رکعات تراویح پڑھنایاپڑھاناآٹھ رکعات کو مسنون سمجھتے ہوئےدرست ہےیا نہیں؟اوراس  کوبدعت عمری کہنا کیسا ہے؟اوریہ اثر عمری سنداصحیح ہےیا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آٹھ رکعت تروایح کوسنت نبوی سمجھ کر پڑھ لینے کےبعد رات کے حصہ میں بطور نفل کےمزید اجر وثواب کےلیے کچھ اوررکعتیں ادا کرنا منع نہیں ہے۔چنانچہ  بعض سلف سے40اور بعض سے38اور بعض سے34اوربعض سے28اوربعض سے24اوربعض سے20تک پڑھنا  منقول ہے ۔لیکن سنت نبوی صرف آٹھ رکعت ہے۔اس سےزیادہ اباحت اورجواز محض کےدرجہ میں ہے ۔کسی اہل حدیث حنفیوں کی طرح مسلسل 20رکعت تراویح پڑھنا  اور یہ خیال کرلینا کہ 8رکعت تراویح مسنونہ ہوئیں اوربقیہ نفل میرے نزدیک ٹھیک نیں ہے۔مقلدین 20رکعت کوجو نہ سنت نبوی ہے نہ سنت عمری سنت  سمجھتے ہیں اور اس کا التزام کرتے ہیں اور 8رکعت پر اکتفا کرنےوالوں پر طعن کرتےہیں۔ اس طرح 20رکعت تراویح مقلدین کاشعار ہوگئی ہے پس مقلدین کی  طرح مسلسل 20رکعت پڑھنے سےان کےشعار کو جوایک غیر مسنون چیز ہے تقویت ہوگی اورسنت نبوی سےاعراض اوراس کےترک کی موہم ہوگی۔ونیز یہ طریق  کا مداہنت سےخالی نہیں ۔ایسی صورت اغلباوہیں پیش آتی ہےجہاں مقتدی عام طور پر حنفی ہوں اوردوایک اہل حدیث یاتراویح پڑھانے والا حافظ اہل حدیث ہوتا ہےاورمصلیان مسجد حنفی ۔پہلی صورت میں ظاہر یہ ہےکہ اہل حدیث 20رکعت اس لئےپڑھتا ہےکہ حنفیوں کی مخالفت کے طعن وتشنیع سےمحفوظ رہے۔اوردوسری صورت میں اہل حدیث حافظ 20رکعت اس لئے پڑھاتا ہےکہ حنفی ہوش رہیں اور اس کوتراویح پڑھانےکی مشروط غیر مشروط اجر مل جائے۔كلتاالصورتين قبيحة عندنا بل لايجوز عندنا بل لايجوز عندنا أخذا الاجرة على التراويح

آپ کی پیش کردہ مرفوع روایت باتفاق امت سخت ضعیف بالکل ناقابل اعتماد ہے ملاحظہ ہونصب الراية للزيلعى الحنفى وفتح القدير لابن الهمام الحنفى وعمدة القاري للعينى الحنفى والعرف الشذى للشيخ محمد انور الكشميرى الحنفى وغيرهما من تصانيف الحنفيه پس آں حضرت ﷺ کی طرف سے 20رکعت تراویح پڑھنےکی نسبت غلط اورباطل ہے ۔ اسی لئے مولوی انورشاہ صاحب مرحوم فرماتےہیں:ولامناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمان ركعات (العرف الشذى2/234)

مولوى عبدالحئی صاحب کی طرح دوسرے حنفی علمانےبھی اس بات کادعوی کیا ہےکہ 20رکعت  پر حضرت عمر﷜ دوسرے صحابہ کااجماع ہوگیا ہے اورچوں کہ آپ ﷺ نےعليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين فرمایا ہےاس لیے 20رکعت پڑھنے کاگویا آپ ﷺ نےحکم دیدیا ۔ملاحظہ ہو:طحطاوى على المراقى ماثبت بالسنة كشف الغمة عمدة القارى وغیرہ اور اسی ادعا ء اجماع  وتعامل صحابہ کی آڑے لے کربعض مقلدین  نہ یہ کہد یا ہےکہ حدیث مرفوع مذکور فی السوال اگرچہ ضعیف ہےلیکن عمل صحابہ کی وجہ سےقوی ہوگئی۔ملاحظہ ہو: اوجزالمسالک والکوکب الدری وغیرہ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ (سنت نبوی8رکعت کےمقابلہ میں) حضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی ﷜ وغیرہ سےبیس رکعت کے متعلق جتنی روایتیں مقلدین نےاب تک ڈھونڈھ کرپیش کی ہیں ان میں سےکوئی سند صحیح نہیں۔سب کی سب مجروع ہیں(ہر ایک اثر اورروایت پر مفصل کلام وجرح تحفۃ الاحوذی(2/74/75/76)میں ملاحظہ کیجئے) چنانچہ آپ کاپیش کردہ اثر  اس وجہ سےصحیح نہیں ہےکہ بیہقی نےاس کو دوسند سےروایت کیاہے۔ایک سند میں دو(ابو عثمان عمروبن عبداللہ االبصری وابوطاہر الفقیہ) ایسے روای ہیں جن کےمتعلق  کچھ نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں؟اورکیسے ہیں؟۔اوردوسری سند میں امام بیہقی کےشیخ ابوعبداللہ  حسین بن محمد بن  فنجویہ دینوری ہیں اور ان کاحال بھی معلوم نہیں۔اوریہ اثر اس لئے بھی غیر محفوظ ہےکہ یہ مؤطا مالک(247ص:85)سنن سعید بن منصور قیام الیل لابی نصر(ص:157)کااوس صحیح محفوظ روایت  کےمعارض ہےجس میں سائب بن یزید صحابی کہتے ہیں کہ: حضرت عمر کےزمانہ میں ہم لوگ گیارہ رکعت تراویح مع وتر پڑھتے تھے اوریہ کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اورتمیم دارمی ﷢ کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانےکا حکم دیاتھا۔

اورجب 20رکعت والےتمام آثار مجروع وضعیف ہیں اورحضرت عمر﷜ کےزمانہ میں ان کےحکم سےبجائے 20رکعت  کے صحابہ کاصرف آٹھ رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہےونیز تراویح کی رکعتوں کےبارے میں سلف کامختلف عمل تھا(کماتقدم)یہاں تک کہ جنگ حرہ سےپہلے ایک سو سےزائد برسوں تک مدینہ والوں  کاعمل37پررہا۔تو20صحابہ پر وتابعین کااجماع اورعمل ومواظبت کادعوی غلط اورباطن نہیں تواور کیاہے۔اورجب خلفاء راشدین وصحابہ کا20پرتعامل ثابت نہیں تومزعومہ تعامل واجماع ومواظبت کےذریعہ حدیث ضعیف کی تقویت وتائید کاظن فاسد  بھی ختم ہوگیا ۔ اور اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے مان لیں کہ20رکعت تراویح حضرت عمر﷜ کی سنت ہےاوریہ کہ اس پر ان کےزمانہ میں لوگوں کاعمل تھا توسنت تھا تو سنت نبوی عمری کوترجیح دینا یعنی:نبی معصوم ﷺ کےعمل کوچھوڑ کرعمل صحابہ لے لیناکونسی فقاہت ہے؟۔

ہمارے لیے شریعت وقانون صرف وحی جلی(قرآن) وحی خفی(حدیث) ہے جس کامرجع الہی ہے۔صحابہ کوتشریع کامنصب حاصل نہیں اورعليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين میں سنت الخلفاء سےمراد خلفاء کی وہ سنت ہے جس کا منشاء واصل سنت نبوی میں موجود ہو۔

اورجب 20رکعت تراویح نہ سنت نبوی ہےنہ سنت عمری نہ معمول صحابہ وتابعین حرمین شریفین بلکہ دنیا بھر کےمقلدین کا20پر عمل ہماری نظر میں کیا وقعت رکھے گا

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 154

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ