سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) فوت شدگان کی طرف سے فرضی روزے رکھنا

  • 17369
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 932

سوال

(43) فوت شدگان کی طرف سے فرضی روزے رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کےذمہ فرضی روزہ فوت شدہ کامل مہینہ بھر کاہوتو اس کےوارث کے بیٹا بیٹی اورنانی نواسی بہو وغیرہ رکھ سکتےہیں یا نہیں؟اورسب مل کردوچارچارروزے رکھ دیں یا اکیلا ایک شخص ؟ اگر اکیلا شخص نہ رکھ سکے تو ادائے گی کی کیا صورت ہے؟ اورفورا رکھیں یادوچار سال بعد بھی رکھ سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کےتمام قرابت داروارث ہوں یاغیر وارث عصبہ ہوں یاغیرعصبہ ؟‎...دودوچار روزہ رکھ کرمیت کی طرف سےقضا دے سکتے ہیں۔وَاخْتَلَفَ الْمُجِيزُونَ فِي الْمُرَادِ بِقَوْلِهِ وَلِيُّهُ فَقِيلَ كُلُّ قَرِيبٍ وَقِيلَ الْوَارِثُ خَاصَّةً وَقِيلَ عَصَبَتُهُ وَالْأَوَّلُ أَرْجَحُ وَالثَّانِي قَرِيبٌ وَيَرُدُّ الثَّالِثَ قِصَّةُ الْمَرْأَةِ الَّتِي سَأَلَتْ عَنْ نَذْرِ أُمِّهَا وَاخْتَلَفُوا أَيْضًا هَلْ يَخْتَصُّ ذَلِكَ بِالْوَلِيِّ لِأَنَّ الْأَصْلَ عَدَمُ النِّيَابَةِ فِي الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَّةِ وَلِأَنَّهَا عِبَادَةٌ لَا تَدْخُلُهَا النِّيَابَةُ فِي الْحَيَاةِ فَكَذَلِكَ فِي الْمَوْتِ إِلَّا مَا وَرَدَ فِيهِ الدَّلِيلُ فَيُقْتَصَرُ عَلَى مَا وَرَدَ فِيهِ وَيَبْقَى الْبَاقِي عَلَى الْأَصْلِ وَهَذَا هُوَ الرَّاجِحُ وَقِيلَ يَخْتَصُّ بِالْوَلِيِّ فَلَوْ أَمَرَ أَجْنَبِيًّا بِأَنْ يَصُومَ عَنْهُ أَجْزَأَ كَمَا فِي الْحَجِّ وَقِيلَ يَصِحُّ اسْتِقْلَالُ الْأَجْنَبِيِّ بِذَلِكَ وَذَكَرَ الْوَلِيَّ لِكَوْنِهِ الْغَالِبَ وَظَاهِرُ صَنِيعِ الْبُخَارِيِّ اخْتِيَارُ هَذَا الْأَخِيرِ وَبِهِ جَزَمَ أَبُو الطَّيِّبِ الطَّبَرِيُّ وَقَوَّاهُ بِتَشْبِيهِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ بِالدَّيْنِ وَالدَّيْنُ لَا يخْتَص بالقريب (فتح الباری جلد4/194)

 بہتراور اولی یہ ہےکہ اولیا قضا دے کرجلد سبکدوش اوربر الذمہ ہوجائیں اوراگر وہ ایک سال موخر کردیں توگناہ  نہیں ہوگا اور نہ فدریہ واجب ہوگا۔لیکن یہ احتیاط کےمنافی ہےاس لئےحتی الامکان جلد قضائی روزے رکھ دینےچاہئیں ۔آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں من مات وعليه صام عنه وليه(بخاري مسلم)يہ حدیث مطلق ہےاس میں کسی وقت کی تعیین اورتقیید نہیں ہے۔محدث

٭مریض دوقسم کےہوتےہیں: ایک :تو وہ جس کےبیماری سےشفایات ہونے کی امید  ہو ایسا مریض اگر شفایاب ہونے کےبعد باوجود وقت ملنے کےاپنےروزوں کی قضا نہ کرسکا اورمرگیاتو اس روزوں کی قضا اس کےاولیا کریں اوراگر  وہ اسی بیماری میں مرگیاتوتواس پر قضاواجب نہیں کیونکہ اس کوقضا کرنے کاموقع ہی نہیں ملا۔

دوسری قسم:ایسے مریض کی ہے جس کو بیماری سےشفاپانے کی امید نہیں جیسے :مفلوج یاآخری درجہ کاٹی بی کامریض توایسے شخص پر روزوں کی قضا نہیں بلکہ وہ ہرووزہ کےبدلے ایک مسکین کوکھاناکھلائے۔

ریحانہ کی طرف سےاس کروزوں کی قضا تم یاکوئی دوسرا نہیں کرسکتا اورنہ ہی اس کےچھوٹے ہوئےروزوں کےبدلے کھاناکھلانا کافی ہوگا بلکہ اس طبیعت روزہ رکھنےکےلائق ہوجائے قضا کرے کیوں کہ اس کی موجودہ تکلیف وشکایت اورکمزوری کےختم ہوجانےکی پوری امید ہےنیز کوئی شخص کسی زندہ کی طرف سے نہ روزہ رکھ سکتا ہے نہ نماز پڑھ سکتا ہےچاہے وہ کتنا ہی مجبور ومعذور اورعاجز کیوں نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 141

محدث فتویٰ

تبصرے