سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) رویت ہلال بذریعہ ریڈیو معتبر ہوگی یا نہیں؟

  • 17364
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1644

سوال

(38) رویت ہلال بذریعہ ریڈیو معتبر ہوگی یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں محققین شرع درایں مسئلہ کہ رویت ہلال بذریعہ ریڈیو معتبر ہوگی یا نہیں؟بینو بالدلائل العقلية والنقلية وتوجروا عند الله ذى الرحمة والواسعة


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں دو باتیں وضاحت  طلب ہیں ۔ ایک :یہ کہ اگر کسی مقام میں رویت ہلال کابقاعدہ شرعیہ تحقق ہوجائے تو اس مقام رویت کےعلاوہ کتنی دور تک  کےمقام میں اس رویت کا اعتبار ہوسکتاہے؟ دوسری :یہ کہ شرعا جتنی دورتک بھی اعتبار ہوسکتا ہو اس میں ریڈیو کےذریعہ اطلاع واعلان اورخبر کااعتبار ہوگا یا نہیں؟

پہلی بات کےبارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ مشرق والوں کی رویت  شرعی مغربی مقام  میں رہنے والوں کےحق میں بلا لحاظ مسافت معتبر ہوگی ۔یہ ناممکن ہےکہ کسی مشرقی مقام میں ہلال طلوع ہوجائے لیکن اس کےمغرب میں طلوع نہ ہو ۔ علم ہئیت قدیم ہویاجدید اس کی روسے ایسا  ہونا ضروری  ہے پس بلالحاظ وتقیید مسافت قریبہ یا بعیدہ مشرق والوں کی رویت  مغرب والوں کے حق میں معتبر ہوگی۔ اورکسی مغربی مقام میں رویت ہلال شرعیہ کاتحقق ہوجائےتو مشرق کے انہیں مقامت تک وہاں  کی رویت معتر ہوکی جس کےمطالع اوربلدہ رویت کےمطلع کےدرمیان اختلاف نہ ہو بلکہ دونوں کےمطالع متفق ومتحد  ہوں۔یہاں مطلع کےاختلاف واتحاد کالحاظ ضروری ہے۔

الذى دل عليه حديث كريب عن ابن عباس عند مسلم أنه لمايجب على يروه الصوم بروية غيرهم إذا تباعد محلهما وهو الأصح من مذهبنا(اى الشافعيه)

واختلفو فى ضبط التباعد والاصح باختلاف المطالع فاذارئى ببلد لزم كل  علم اتحاد مطلعها معها الصوم برؤيتهم بخلاف بلد علم اختلاف مطلعها لها أوشك هل مطلعها متحد او مختلف؟

قال فى الانوار: والمراد باختلاف المطالع ان يتباعد البلدان بحيث لورئى فى احدهما لم ير فى الاخر غالبا انتهى قال السبكى :قد تختلف تكون  رؤيته فى احدهما مستلزمه لرؤيته فى الاخر من غير عكس إذا الليل يدخل فى البلاد الشرقية قبل دخوله فى الغربية وحينئذ عن اختلافهما من رويته فى الشرقى رويته فى المغربى من غسر عكس واما عند اتحادهما فيلزم من رؤيته فى احدهما رؤيته فى الاخر قال الاسنوى: وعلى هذا يحمل حديث كريب فان الشام غربى المدينة فلايلزم من رؤيته فى الشام رؤيته فيها أى المدينه ومما يؤيد ان الاعتبار باتحاد المطالع دون مسافة القصر اتفاقهم على ان اختلافها معتبر فى مواقيت الصلاة( اتحاد اهل  الاسلام بخصوصيات الصيام ص71/72لابن حجر االهيثمى المكى)

میل اور کوس کےذریعہ اتحاد واختلاف مطلع کی تحدید وتعیین دشوار ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ تقریبا 600میل دوری  پر مطلع مختلف ہوجاتا ہے اوراس سےکم مسافت پر مطلع متحد متفق رہتا ہے واللہ اعلم۔

دوسری بات کےبارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ ریڈیو کےذریعہ رویت ہلال کی خبر نہ  تو مطلقا مقبول ومعتبر ہے نہ مطلقا مردو ہے۔

ریڈیو  فی نفسہ بری چیز نہیں ہے اور نہ اس کااستعمال  ممنوع ہے بلکہ اگر اس سےجائز فائدہ اٹھایا جائے اورکلام لیا جائے تو وہ اچھی اورجائز چیز ہے اورغلط کام میں استعمال کیا جائے تو بری چیز ہے۔

 اسلامی ملک پابند شریعت حکومت اگر بقاعدہ شرعیہ رویت ہلال کی تحقیق کرکے ذمہ دارانہ طور پر رؤیت کاریڈیو کےذریعہ اعلان کرے تو اس کی قلمرو اور حددو کےاندر نیز بیرون ملک میں بلدہ رویت سےمغرب میں واقع تمام بلاد وا مصار و توابع میں مطلقا اس ریڈیو کی خبر معتبر ہوگی اورمشرقی مقامات میں اتحاد مطلع کی حد تک معتبر ہوگی۔

اور غیر مسلم حکومت کےریڈیو کےذریعہ رویت ہلال کی خبر کابتفصیل مذکور اس وقت اعتبار ہوگا جب کہ اس نے معتبر مشاہیر علماء کی رویت ہلال کمیٹی مقرر کی ہو۔ اور یہ کمیٹی ہی باقاعدہ شرعیہ رویت کی تحقیق کرکے خودریڈیو پرجاکر اعلان کرے۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب۔محدث

٭رویت ہلال کےبارے میں ریڈیو کی خبر کی بابت علماء  اہل حدیث کاکیا خیال؟ اس سلسلہ میں مجھے زیادہ واققفیت نہیں ہے۔مرحومین میں سےصرف مولانا شرف الدین دہلوی کی رائے معلوم ہوسکی ہے۔مولاناتحریر فرماتے ہیں:

اگر ریڈیو کا حال معلوم ہے کہ ثقہ خبر دیتا ہےاورآواز بھی اس کی پہچانتے ہیں تو معتبر ہے ورنہ نہیں۔ اورصرف متفق المطالع شہر اس پر عمل کریں گے۔مختلف المطالع اس پر عمل  نہ کریں گے(فتاوی ثنائیہ1۔419) برہان اوراسلام یہاں نہیں آتے۔الاسلام کہیں سےحاصل کرکے محولہ مضمون پڑھنے کی کوشش کروں گا۔

حنفیہ  کوتسلی وتشفی نہیں ہوگی جب تک فقہ وفتاوی حنفیہ  میں ان کو کوئی مناسب اور لگتی ہوئی جزئی مل جائے۔ چاہے وہ کیسے ہی کسی  متقدم فقیہ یا غیر فقیہ کاقول وفتوی اوروائے کیوں نہ ہو۔حنفیہ نے رویت ہلال کی خبر  کو من مل وجوہ شہادت قرار دیا ہے اس لئے لامحالہ اس میں شہادت کے قیود وشرائط کالحاظ واعتبار ضروری ہوگیا۔

رویت ہلال کی خبر کے بارے میں غلبہ ظن صدق کافی ہے۔مگر یہ غلبہ ظن مظان شرعیہ سےحاصل ہونا چاہئے ۔ اور ان کےنزدیک خط ٹیلیفون تار ریڈیو مظان شرعیہ سے نہیں ہیں اس لئے ان کےذریعہ حاصل شدہ  غلبہ ظن کافی نہیں ہوگا۔موضع رویت کے علاوہ دوسرے مقامات میں اس رویت کااعتبار اسی وقت ہوگاجب کہ شامی وغیرہ میں مذکورک تین طریقوں میں سےکسی ایک طریقہ کےمطابق رویت کی اطلاع وہاں پہونچے۔اورخط تار ٹیلیفون ریڈیو سےپہونچے والی خبران مذکورہ طریقوں  کےمطابق نہیں پہونچتی اس لئے ان ذرائع کا عندالحنفیہ رویت ہلال کےبارے میں مطلقا اعتبار نہیں ہوگا۔

اب میں صرف ریڈیو کی خبر کےبارے میں اپناخیال  اوراپنی رائے لکھ رہا ہو اس لئے  کہ آپ  نے محض ریڈیو کے بارے میں استفسار کیا ہے۔

روت ہلال کی خبر دینےوالا ریڈیو اگر اسلامی یامسلم حکومت کاہے جیسے :افغانستان سعودیہ عربیہ پاکستان کویت مصر مراکش وغیرہ اوروہاں کی حکومت  علماء کے ذریعہ رویت کے شرعی طریق پر ثبوت کااطمینان حاصل کرلینےکے بعد ہی اپنے قلم روکےریڈیو اسٹیشنوں کےذریعہ رویت کا اعلان کراتی ہے تو اگر وہ اختلاف  واتحاد اوراس  کےمتقضی پر عمل سلطنت کےوہی لوک کریں گے جن کےمطالع موضع رویت کے مطلع سے متفق ہوں مختلف نہ ہوں۔ مثلا :مقام رویت سےمشرق میں چار سو میل کےاندر واقع مقامات کےلوگ ۔

 اوراگر خبر دینے والا ریڈیو اسٹیشن غیر مسلم حکومت کا ہے جیسے ہندوستان ہو روہاں ومعروف علماء ومسلم اعیان کی کوئی سرکاری یانیم سرکاری نجی رویت کمیٹی موجد ہےاور اس کمیٹی کیےارکان کےناموں کااعلان پہلے سے اخبارت کےذریعہ کردیا گیا ہے۔تمام لوگ ان سےمتعارف ہوچکے ہیں۔ اور نجی کمیٹی کارابطہ بھی حکومت کےعملہ ریڈیو سےقائم ہے اورکمیٹی بقاعدہ شرعیہ رویت کاثبوت بہم پہونچ جانے کے بعد رویت کاحکم لگاتی ہےپھر اس کمیٹی کےمعروف مشہور دوتین ارکان(اعیان وعلماء) ریڈیو اپنے تعارف کےساتھ یکے بعد دیگرے رویت کا اعلان کرتے ہیں تو وہ جس مقام کی رویت ثابتہ کا اعلان کریں اس مقام سے مشرق میں واقع متفق المطالع مقامات کےلوگوں کواس اعلان پر عمل کرناچاہئے۔ اورجن کےمطالع معلنہ موضع رویت سےمختلف ہوں وہ اس پر عمل نہ کریں گے۔مثلا دہلی ریڈیو  اسٹیشن سے اس کمیٹی کےاکابر کا اعلان یوپی کےمشرقی اضلاع کےحق میں معتبر اورواجب العمل والتسلیم نہ ہوگا۔

 اوراگر مذکورہ قسم کی کوئی کمیٹی قائم نہیں ہے۔ اورحکومت کاعملہ روزہ مردہ کی خبروں کی طرح رویت  کی خبر کو بھی اپنےطور پر حاصل کرکے ریڈیو کےذریعہ نشر کرتا ہے تو اس کوتسلیم نہیں کیا جائے گا یعنی : اس کےمطابق عمل کرنا سنت نہیں ہوگا۔

مشرقی پاکستان کےریڈیو اسٹیشن سےرویت ہلال کااعلان پورے ہندوستان کےحق میں اسی طرح مشرقی ہند کےکسی ریڈیو اسٹیشن سے رویت کا اعلان پورے مغربی ہند کےحق میں معتبر ہوگابشرطیکہ یہ اعلان اس طریقہ اورصورت میں ہو جس کو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ھذا ماعند واللہ اعلم

ہمار مذکورہ مشروحہ صورت میں ریڈیو کے مطابق شرعی سےہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا ۔اور اس سےغلبہ ظن ہی نہیں بلکہ یقین بھی حاصل ہوجاتا ہے اورشامی کی لکھی ہوئی تینوں صورتوں پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہےلہذا اس کی پابندی ضروری نہیں ۔ واللہ واعلم۔

رویت کمیٹی کےاجتماع میں جو کچھ زیر بحث آئے اورطے ہو۔ اس سے بھی مجھے مطلع کیجئے گا۔مکاتیب

اختلاف مطالع

احکام شرعیہ میں اختلاف مطالع کااعتبار کرنے والے اپنے مدعا  پر دوطریق سے استدلال پکڑتے ہیں: پہلا طریق : حدیث کریب ہےلیکن اس حدیث کےاس مدعا پر دلالت کرنے میں خود ان لوگوں کوبھی کلام ہےجو اختلاف مطالع کااعتبار کرتے ہیں علامہ سند حنفی سنن نسائی کےحاشیہ میں لکھتے ہیں کو اس کریب کی حدیث ہے هَكَذَا أمرنَا رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم(سنن النسائی کتاب الصیام حدیث2111)پر ہےهَكَذَا أمرنَا رَسُول الله صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم يحْتَمل أَن المُرَاد بِهِ أَنه أمرنَا أَن لَا نقبل شَهَادَة الْوَاحِد فِي حق الْإِفْطَار أَو أمرنَا أَن نعتمد على رُؤْيَة أهل بلدنا وَلَا نعتمد على رُؤْيَة غَيرهم والى الْمَعْنى الثَّانِي تميل تَرْجَمَة المُصَنّف وَغَيره لَكِن الْمَعْنى الأول مُحْتَمل فَلَا يَسْتَقِيم الِاسْتِدْلَال إِذْ الِاحْتِمَال يفْسد الِاسْتِدْلَال وَكَأَنَّهُم رَأَوْا أَن الْمُتَبَادر هُوَ الثَّانِي فبنوا عَلَيْهِ الِاسْتِدْلَال وَالله تَعَالَى أعلم قَوْله

سے مراد یہ ہوکہ آپ نے ہمارے لئے  حکم کیاہوکہ افطار کےحق میں ایک شخص کی گواہی  ہم نہ  قبول کریں(اوریہاں کریب ایک شخص کی گواہی  ہے) یا یہ مطلب ہےکہ حکم فرمایا کہ اپنےشہروالوں کی رؤیت اعتبار کریں اور اپنے غیر کی روایت کااعتبار  نہ کریں اوردوسرے مطلب کی طرف امام نسائی کاترجمہ مائل ہے لیکن پہلے مطلب کااحتما ل بھی اس وجہ سےااستدل درست نہیں ہوتاکیوں کہ احتمال سےاستدلال ساقط ہوجاتاہے۔

اس تقریر کو کچھ تفصیل  سےعلامہ شوکانی نےنیل(3/506)میں اجمال سےعلامہ  نووی نےشرح مسلم (7/204) میں علامہ منصور حنبلی نےکشاف القناع میں لکھی ہے  اوربات بھی یہی ہےکہ احتمال سےاستدلال قائم نہیں رہتا۔

دوسرا طریق استدلال :یہ کہ اختلاف طلوع وغروب وزوال شمس پر رؤیت ہلال کوقیاس کرنا اورکہنا ہے کہأَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ(سورۃ البقرہ187)یاأَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ(الاسراء:78)

میں جیساکہ حکم ہےویسا ہی صوموالرؤیتہ وافطروالرویتہ

کتاب االصیام سنن النسائی حاشیہ سندی) میں ہی ہےپس جب آفتاب کےطلوع وغروب وزوال کےاختلاف لامحالہ ہر جگہ معتبر رویت ہلال کے اختلاف مطالع میں بھی ضرور معتبر ہوناچاہیے۔

علامہ منصور بن ادریس الحنبلی نےکشاف القناع میں بعد نقل کرنے اس  دلیل کےاس کاجواب نقل کیا ہے چنانچہ کشاف القناع(2/253/254)

وَأَجَابَ الْقَاضِي عَنْ قَوْلِ الْمُخَالِفِ: الْهِلَالُ يَجْرِي مَجْرَى طُلُوعِ الشَّمْسِ وَغُرُوبِهَا، وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ حُكْمُ نَفْسِهِ، كَذَا الْهِلَالُ بِأَنَّ الشَّمْسَ تَتَكَرَّرُ مُرَاعَاتُهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ فَتَلْحَقُ بِهِ الْمَشَقَّةُ، فَيُؤَدِّي إلَى قَضَاءِ الْعِبَادَاتِ، وَالْهِلَالُ فِي السَّنَةِ مَرَّةً فَلَيْسَ كَبِيرُ مَشَقَّةٍ فِي قَضَاءِ يَوْمٍ، وَدَلِيلُ الْمَسْأَلَةِ مِنْ الْعُمُومِ يَقْتَضِي التَّسْوِيَةَ (کتاب الصيام كشاف القناع 2/304)

يعنی:اورقاضی صاحب نےمخالف کےاس قول( کہ ہلال طلوع شمس اوراس کےغروب کی جگہ پر جاری ہوتاہےاور یہ ثابت ہےکہ طلوع وغروب شمس ہرجگہ اپنی اپنی معتبر ہےپس ایسے ہی ہلال بھی ہونا چاہیے ) کاجواب یوں دیاہےکہ ہردن ایک جگہ کےطلوع وغروب کادوسری  جگہ  باربار اعتبار کرنے میں مشقت  لاحق ہوگی اس وجہ سےعبادات کی قضاء کرنا پڑے گی اورچوں کہ ہلال سال میں ایک بار  ہوتا ہے اس وجہ سے اس میں بڑی مشقت نہیں ہےاور اس مسئلہ کی دلیل  یہی عمومیت کی وجہ سے ہر جگہ برابری کی مقتضی ہے۔

یہ جواب جیسا کہ ظاہر ہےکہ اس سے کچھ بھی تشفی حاصل نہیں ہوسکتی۔

بعض اہل رؤیت ہلال اورطلوع وغروب وزوال شمس میں ایک دقیق فرق بتاتےہیں وہ یہ کہ ہر شخص کی لیل(رات) اس کا  زوال شمس طلوع فجر اورغروب شمس کےساتھ ہے۔فرض کرو کہ عمروبکر سےدس میل کےفاصلہ پر ہے یاپانچ ہی میل کےفاصلے پر ہے یادوہی میل کےفاصلے  پر ہے وہ کسی حالت میں بھی بکر طلوع وغروب وزوال سےسوال نہ کرے گا کیوں کہ اسے یقین ہےکہجہاں مجھے غروب شمس پالیوے گا میں مغرب کی نماز پڑھوں کا۔روزہ افطار کروں گا۔ ایسے ہی ایک شخص سحری کھا کر کلکتہ سےڈاک پر روانہ ہو اب جہا اس کو غروب شمس پائے گاافطار کرے گا۔روزہ افطار کروں کا۔ ایسے ہی ایک شخص سحری کھاکر کلکتہ سےڈاک پر روانہ ہواب جہاں اس کوغروب شمس پائے گاافطار کرے گا اگرچہ اس کے صیام کےاقات میں کئی گھنٹے کاااضافہ ہوجائے یاطلوع فجر پائے گا توفجر کی نماز پڑھےگا۔ وہ دیکھ لے گا کہ غروب شمس ہوگیا ہے یاطلوع فجر ہوگئی ہے اس کی فرمایا:اقبل الليل من هاهنا وادبر النهار من ههنا وغربت الشمس فقد افطر الصائم (بخار كتاب االصيام2/232)بخلاف رؤیت ہلال کےکہ ہر ایک رؤیت اس کےساتھ نہیں بلکہ قرب وجوار دس بیس میل کےلوگوں کےلئےاسک مقام کی رؤیت کافی ہوگی اس میں کسی کاکلام نہیں ۔ اس لئے اس میں بہت کھوج کی ضرورت پڑتی ہےاور ایک مقام کی رؤیت بشرط نصاب شہادت دوسری جگہ معتبر ہوجاتی ہے۔چنانچہ دیہات کےلوگوں کی شہادت کو لے کر اہل مدینہ کو صیام کاحکم دیدیا غور کرو جو لوگ اختلاف مطالع کااعتبار کرناچاہتےہیں یا اعتبار کرتے ہیں خود وہ بھی  دس میل کےفاصلے  کوکالعدم شمار کرتے ہیں اور مقام کی رؤیت کودوسری جگہ  معتبر مانتے ہیں اوردیکھو اس لئے اختلاف مطالع  کے اعتبار کرنے والوں میں خود اختلاف پیدا ہوگیا کہ کس قدر فاصلہ اوربعد ایک جگہ کی رؤیت کودوسری جگہ اعتبار کرنےمیں مانع ہوگا اور اس قسم کااختلاف  مطالع کےاعتبار کرنےوالوں میں خود پیدا  ہوگیا کہ کس قدر فاصلہ اور بعد ایک جگہ رؤیت کو دوسری جگہ اعتبار کرنے میں مانع ہوگا اوراس قسم کااختلاف کہ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ(سورۃ البقرہ187)یاأَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ(الاسراء:78) میں کیوں  نہیں واقع ہوا۔

قال فى نيل الأوطار(3/506)وفى ضبط البعد اوجه:احدها : اختلاف المطالع قطع به العراقيون والصيدلانى:یعنی نیل الاوطار میں ہےکہ: بعد وفاصلہ میں اختلاف ہے۔ایک قول یہ ہے کہ وہ بعد مانع ہوگا جواختلاف مطالع رکھتا ہےاس کےقائل عراقی یعنی: حنفی لوگ ہیں اورصیدلانی  اسی کےقائل ہیں۔

(لیکن خود عراقیوں میں جگھڑا پڑگیا کہ آخر مطالع کتنی دوری میں ہوتا ہے۔جامع الرموز میں ہےکہ:أقل مايختلف به المطالع شهریعنی :کم ازکم ہےجتنے فاصلہ میں اختلاف مطالع معتبر ہوگا ایک ماہ کی مسافت ہے)

وَصَحَّحَهُ النَّوَوِيُّ فِي الرَّوْضَةِ وَشَرْحِ الْمُهَذَّبِ. ثَانِيهَا: مَسَافَةُ الْقَصْرِ قَطَعَ بِهِ الْبَغَوِيّ، وَصَحَّحَهُ الرَّافِعِيُّ وَالنَّوَوِيُّ. ثَالِثُهَا: بِاخْتِلَافِ الْأَقَالِيمِ، حَكَاهُ فِي الْفَتْحِ. رَابِعُهَا: أَنَّهُ يَلْزَمُ أَهْلَ كُلِّ بَلَدٍ لَا يُتَصَوَّرُ خَفَاؤُهُ عَنْهُمْ بِلَا عَارِضٍ دُونَ غَيْرِهِمْ، حَكَاهُ السَّرَخْسِيُّ. خَامِسُهَا: مِثْلُ قَوْلِ ابْنِ الْمَاجِشُونِ الْمُتَقَدِّمِ.

سَادِسُهَا: أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ إذَا اخْتَلَفَتْ الْجِهَتَانِ ارْتِفَاعًا وَانْحِدَارًا كَأَنْ يَكُونَ أَحَدُهُمَا سَهْلًا وَالْآخَرُ جَبَلًا أَوْ كَانَ كُلُّ بَلَدٍ فِي إقْلِيمٍ، حَكَاهُ الْمَهْدِيُّ فِي الْبَحْرِ عَنْ الْإِمَامِ يَحْيَى وَالْهَادَوِيَّةِ.(نيل االاوطار4/230)

 دوسرا قول: یہ ہے کہ وہ بعد مانع ہوگا جش میں صلاۃ قصر کی مسافت ہو اسے بغوی نےیقنی کہا ہے اسی کو رافعی اور نووی نے صحیح کہا ہے ۔تیسرا قول: یہ ہےکہ وہ بعد لیاجائےگا جس کا میں اقلیم  بدل جائے ۔چوتھا۔ قول :یہ ہے کہ ایک بلد کی رویت اتنی دور کےفاصلے تک معتبر ہوگی کہ ہلال بغیر بدلی یاغبار کے اتنی دور میں چھپ  نہیں سکتا۔پانچواں قول : ابن ماجثون کےقول کےمطابق ہے کہاگر رؤیت ہلال امام اعظم یعنی: شیخ الاسلام کےنزدیک ثابت ہوجائے تودنیا کےتمام لوگوں کو ماننا پڑے گا کیوں کہ تمام بلاداس کےنزدیک ایک نمبر کےحکم میں ہیں۔اس لئے کہ اس کاحکم تمام جگہ نافذ ہے۔چھٹا قول: ہے کہ اگر دونوں جہتیں بلندی وپستی میں مختلف ہیں مثلا: ایک  پہاڑ پر برسا ہوا ہےاور ایک نیچی زمین میں بسا ہوا ہے یاباہر بلد ایک ایک اقلیم میں واقع ہواہے۔ایسی حالت میں ایک کی رؤیت ہلال دوسرے کےلیےلازم نہیں ہے۔

غور کروأتمو الصيام الى الليل میں کیوں نہیں  یہ اختلاف واقع ہو؟ ۔اس وجہ سے کہ بلاشبہ ہررات اوراس کاغروب وطلوع وزوال اس کےساتھ ساتھ بخلاف صومو لرؤیتہ کے کہ وہاں یہ بات نہیں ہے کہ ہر کسی کی رویت اس کےساتھ ساتھ ہو۔

اقل اختلاف مطالع کومتاخرین حنفیوں نے تو اکی ماہ کےبعد مسافت  کوٹھہرایا ہے۔لیکن یہ قول کہاں تک مدلل ہے؟ اس کا بھی پتہ نہیں ٭اوراشارع  نے کسی مسئلہ شرعیہ کو اہل بیت پر موقوف نہیں رکھاکہ وہ آگر ہرجگہ کےاول اختلاف مطالع کی تحدید وتعیین کرکےبنادیں۔اس مسئلہ شرعیہ  کا حل ہواور اس پر حل کےلئے راہ ملے۔لہذا اس بعد مسافت کی تعیین دلیل کےساتھ جس سےایک جگہ کی رویت دوسری جگہ غیر معتبرشمار کی جائے ان لوگوں کےذمہ ہےجو اختلاف مطالع کرتے ہیں کا اعتبار کرتےہیں۔,مالهم فيه الاتخمين وقياس-البتہ ان لوگوں پر ایک خدشہ یہ بھی وارد ہوتاہےکہ جولوگ کہتے ہیں اذا راه أهل بلد لزم اهل البلاد وكلها کہ ایک بلاد کےلوگوں نےحلال دیکھ لیا تودنیا کےتمام بلاد پر روزہ رکھنا لازم ہوگا جیساکہ کشاف القناع میں ہے۔ وہ خدشہ یہ ہےکہ حدیث میں وارد ہو فان غم عليكم فأكملو العدة ثلاثين-کہ انتیس کاچاند ڈھک جائے توتیس کی گنتی پوری کرو کیوں کہ اس بناء پر یہ حکم ہوناچاہیے کہ انتیس کوچاند نہ دیکھاجائے تو خبر منگا لیا کرو۔کیوں کہ ایک جگہ کی رویت تمام دنیا کو ایام لازم کردیتی ہے اوردنیا میں ہر جگہ غمیم (بادل) کاہونا  صحیح نہیں پس بجائے گنتی پوری کرنےکےخبر منگانےکی فکر کرنی چاہیے۔ ممکن ہےکہ اس میں جرح سمجھ ایسا حکم نہیں دیا گیا۔

ہاں اگر معتبر ذریعہ سےخبر مل جائےتوروزہ رکھنا لازم ہوگا۔مکاتیب

(1)رویت ہلال میں ایسے مسلمان مرد عورت کی شہادت معتبر ہوگی فاسق نہ ہو جس کی ظاہر حالت شرع نہ ہو بدلی ہویا گردوغبار  تورمضان کے لئے ایک اورغیر رمضان کےلئے دو معتبر شخصوں کی شہادت ضروری ہے۔اور آسمان صاف ہونےکی صورت میں جم غفیر کی شہادت ضروری ہے۔

(2)مقام رویت کےسوا دوسرے مقامات میں اس رویت کےاعتبار کےلئےدوشرطوں کا تحقق ضروری ہے۔بغیر ان کےدوسری جگہوں میں رویت اعتبار  نہیں ہوگا یعنی: اس پر عمل  نہیں ہوگا۔ کسی مغربی شہر اورمقام کی رویت مشرق والوں کےلئےاس وقت معتبر ہوگی جبکہ دونوں مقاموں کامطلع متحد ہو۔کہتے ہیں کہ تقریبا پانچ سو میل کی مسافت تک مطلع مختلف نہیں ہوتاپس اس دور کی مسافت پڑھنےوالے مشرقی لوگوں کےحق میں مغرب کی رویت  معتبر نہیں ہوگی اور مشرق کی رویت مغرب والوں کےحق میں بہر حال معتبر ہوگی چاہے مقام رویت سےکتنی ہی دوری برکیوں نہ ہوں فافھم:

(2)رویت کی خبر دوسرے مقام میں ا س وقت معتبر ہوگی جبکہ بقاعدہ شرعیہ پہونچی ہودو ایک تار یا ٹیلیفیون کاآجاناریڈیو کی موجودہ صورت اعلان رویت قاعدہ شرعیہ میں داخل نہیں ہے۔

(3)ریڈیوں کی خبر نہ تومطلقا مقبول  ہے نہ مردود۔ ہندوستان کےکسی ریڈیو اسٹیشن کی خبر رویت کےحق میں معتبر نہیں ہوگی کیوں کہ ریڈیوں کی خبر کےمعتبر ہونےکےلئےجس چیز کاہوناضروری ہےوہ یہاں متحق نہیں ہے اورپاکستان کےریڈیوسے اعلان رویت کےاعتبار کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ہلال کمیٹی جس میں معتبر علماء اورسربرآوردہ مسلمان شامل ہوں۔ایسی کمیٹی کےاعلان پر مقامی لوگوں کوعمل کرنا ہوگا اوردوروالوں کاحکم دوسرے سوال کےجواب میں مذکور ہوچکا ہے۔جولوگ ریڈیو کی خبر پر اعتماد کرکے روزہ رکھتے ہیں یاشب قدر مناتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔

(4)جنتری یاکلنڈر میں لکھی ہوئی رویت  کی تاریخ پر اعتماد کرکےروزہ رکھنا یا عید بقر منانا  غلط کام ہے کلنڈر اورجنبری سےبسااوقات اختلاف ہوجاتاہے۔

(5)جن لوگوں نےجمعہ سے روزہ رکھا ہےانھوں نے ٹھیک کیا ہے۔ہمارےمباکپور کےلوگوں نےجمعرات کوچاند دیکھا تھا اس لئے یہاں متفقہ طور پر پہلاروزہ جمعہ کوتھا۔ضلع اعظم گڑھ اوربستی وگونڈہ وغیرہ  اضلاع  کے مطالع  مختلف نہیں ہیں بلکہ متحد ہیں بہت معمولی فرق رکھتےے ہیں۔

(6)تروایح آٹھ رکعت اوروتر تین رکعت بسلام واحد یابسلامین کل 11رکعت پڑھ جاسکتی ہے اوردس رکعت کےبعد تین رکعت وتر کل13رکعت  پڑھی جاسکتی ہے لیکن زیادہ تر8تروایح اور3وتر بسلام واحد کل گیارہ پر عمل  ہوناچاہیے۔

(7)ایسی صورت میں پہلے وتر فائتہ پڑھے پھڑ وتر وقتنیہ پڑھے واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 128

محدث فتویٰ

تبصرے