السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملک بنگال میں پیروں نےیہ عادت کرلیا ہےکہ صدقات وفطر وقیمت چرم قربانی جس قدر ر ہوتا ہے اس کوتین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ خود لیتے ہیں اورایک حصہ امام مسجد کودیتے ہیں اور ایک حصہ مدرسہ وغیرہ میں دیتے ہیں۔اگرچہ امام مسجد وپیر صاحبان صاحب نصاب ہوں۔کیااس طرح مال مذکورہ کوتقسم کرناجائز ہے؟ اورصاحب نصاب کواس مال لیناجائز ہےیا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ فطر اورزکوۃ کےمصرف ایک ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ نے صدقہ فطر پر زکوۃ کااطلاق فرمایا ہے۔كما لايخفى على من له ادنى اطلاع على كتب الحديث اور زكوة غنى(حساب نصاب) کے لئے درست نہیں ہے۔ائمہ مساجد وپیر صاحبان (اگر وہ فقراء ومساکین نہیں بلکہ صاحب نصاب ہیں) عاملین اورفی سبیل اللہ میں داخل نہیں ہے۔اس لئے ان کوایسی صورت میں زکوۃ صدقہ فطر لینادرست نہیں ہے۔ مدرسین وملازمین مدرسہ کی تنخواہوں میں صرف کرنادرست نہیں ہےکہ زکوۃ صدقہ فطر عبادت الہی ہےجس کی ادائیگی میں معاوضہ اوردنیاوی غرض ونفع کادخل نہیں ہوناچاہئے۔ہاں اگریہ ائمہ مساجد پیر صاحبان ومدرسین صاحب نصاب نہیں ہیں تو بحیثیت فقیر ومسکین ہونے کےبغیر کسی معاوضہ کاخیال کئے ہوئے صدقہ فطر وزکوۃ لے سکتےہیں۔غریب طلبہ پر بھی صرف کرناجائز ہے۔
چرم قربانی کامصرف بھی فقراء ومساکین ہیں خواہ وہ طلبہ ہوں یا اورکوئی۔صاحب نصاب کےلئے درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب